پاکستان فلم اور ٹی وی کی اداکارہ اور ماڈل عائشہ عمر نے انکشاف کیا ہے کہ اُنہیں بھی ہراساں کیا جاتا رہا ہے لیکن وہ ابھی اتنی بہادر نہیں کہ اس پر کھل کر بات کر سکیں۔
یہ انکشاف انہوں نے 'بول' ٹی وی کے ایک پروگرام 'بول نائٹس' کے دوران میزبان احسن خان سے گفتگو کے دوران کیا۔
احسن خان نے جب ان سے پوچھا کہ 'می ٹو' مہم کس حد تک اہم ہے تو عائشہ کا کہنا تھا کہ یہ مہم جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے افراد کو اس موضوع پر بات کرنے کے لیے با اختیار بناتی ہے۔ یہ مردوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی عورتوں کے لیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ شاید کچھ لوگوں نے اس مہم کا غلط استعمال کیا ہو لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ مہم غلط ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈسٹری میں بہت سے ایسے مرد و خواتین ہیں جنہیں جنسی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خود مجھے بھی اپنے کیریئر کے دوران ہراساں کیا گیا لیکن وہ ابھی اتنی بہادر نہیں کہ اس حوالے سے کھل کر بات کر سکیں۔
عائشہ کے بقول، "ممکن ہے ایک دن میں اس حوالے سے بات کروں لیکن ابھی نہیں۔ میں ان تمام لوگوں سے اتفاق کرتی ہوں جو اس صورت حال کا سامنا کر چکے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ کہ انسان ایسے وقت میں کیا محسوس کرتا اور کن کیفیات سے گزرتا ہے۔ جس کسی کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہو وہ کبھی بھی اس پر بات کرسکتا ہے۔ وہ ایک سال، 20 سال یا دو منٹ بعد بھی سامنے آ کر اس کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے۔
عائشہ نے اب تک متعدد ٹی وی ڈراموں میں کام کیا ہے۔ ان کی ایک مزاحیہ سیریز 'بلبلے' پچھلے 11 برس سے متواتر نشر ہو رہی ہے جب کہ وہ اب تک چار فلموں میں بھی کام کر چکی ہیں۔
ان کی دو فلمیں 'یلغار' اور 'تلاش' ریلیز ہو چکی ہیں جب کہ دو فلمیں تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان فلم ساز جامی بھی اپنے خلاف ماضی میں ہونے والی جنسی زیادہ کا انکشاف کر چکے ہیں۔
اُن کے علاوہ گلوکارہ میشا شفیع اور گلوکار و اداکار علی ظفر بھی 2018 سے ہراسگی کے ایک مقدمے میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔
حالیہ برسوں میں 'می ٹو' مہم جب زوروں پر تھی تب بھی کئی ملکی اور متعدد غیر ملکی فنکاروں نے انکشاف کیا تھا کہ وہ بھی ہراساں کیے جاتے رہے ہیں۔
یورپ اور امریکہ کے کچھ ملزمان پر تو باقاعدہ مقدمات بھی درج ہوئے اور انہیں عدالت سے سزائیں بھی ملتی رہی ہیں لیکن پاکستان میں اب تک 'می ٹو' مہم کے تحت کسی کو کوئی سزا نہیں مل سکی ہے۔
اس مہم کی شروعات 2017 میں ہوئی تھی جب ہالی ووڈ کی نامور فنکاراؤں نے فلم ساز ہاروے ونسٹین پر جنسی طور پر ہراساں کرنے اور خواتین سے زیادتی کے الزامات عائد کیے تھے۔
امریکہ کی عدالت میں ہاروے ونسٹین کے خلاف مقدمہ تاحال جاری ہے اور گزشتہ روز بھی انہیں عدالت میں پیش ہونا پڑا تھا۔
اس مہم کے آغاز سے اب تک خواتین خود کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے راز سے پردہ اٹھاتی رہی ہیں۔
بھارتی فلم نگری میں بھی ان گنت مردوں اور عورتوں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ بھارت میں 'می ٹو' مہم کا آغاز اداکارہ تنوشری دتہ کے نانا پاٹیکر پر الزامات سے ہوا تھا۔