رسائی کے لنکس

سال 2018 میں 'می ٹو' مہم کی لپیٹ میں آنے والے فن کار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

لیکن سال 2018 میں بہت سی پاکستانی شخصیات نے نہ صرف اپنے ساتھ پیش آئے ایسے واقعات کا اعتراف کیا بلکہ اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی جو ’می ٹو‘ کا حصہ بنی۔

سال 2018 میں جس مہم نے دنیا بھر کی شہ سرخیوں میں سب سے زیادہ جگہ بنائی وہ تھی۔ ’می ٹو‘ مہم۔ اس مہم نے پاکستانی فنکاروں کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لیا بلکہ بات بالی ووڈ سے ہوتی ہوئی ہالی ووڈ تک پہنچ گئی اور ایک کے بعد ایک بڑا فنکار اس کی لپیٹ میں آتا رہا ۔

دراصل یہ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف شروع کی گئی تھی ۔ پاکستانی معاشرے کے لئے تو یہ مہم گویا حیران کن تھی کیوں کہ معاشرے میں اس سے پہلے کبھی نہ تو اس قسم کی کوئی مہم ہی چلی تھی اور نہ ہی اس کا تصور پہلے کبھی کیا گیا۔ حتیٰ کہ ایسے موضوع کو اب تک ’اچھوت ‘سمجھا جاتا تھا اور اس پر بات کرنا بھی گویا ایک جرم یا گناہ تھا۔

لیکن سال 2018 میں بہت سی پاکستانی شخصیات نے نہ صرف اپنے ساتھ پیش آئے ایسے واقعات کا اعتراف کیا بلکہ اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی جو ’می ٹو‘ کا حصہ بنی۔

جن پاکستانی فنکاروں نے اس مہم میں حصہ لیا ان میں نامور شوبز شخصیات میشا شفیع، نادیہ جمیل، فریحہ الطاف ، خالد باجوہ ، جنید اکرم ، اور ماہین خان شامل تھیں۔

ایکٹریس اور سنگر میشا شفیع نے اپریل 2018 میں ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں سنگر اور ایکٹر علی ظفر پر ایک سے زائد مرتبہ جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا۔ تاہم علی ظفر نے میشا شفیع کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ یہ کیس تاحال زیر سماعت ہے۔

ًبالی ووڈ کی بات کریں تو یہاں اور بھی بڑے بڑے نام سامنے آئے جیسے نانا پاٹیکر ، ترون شری دتہ،ونیتی نندا، آلوک ناتھ، ساجد خان، انو ملک، سبھاش گھئی،وکاس بہل، کنگنا راناوت اور راکھی ساونت وغیرہ وغیرہ۔

یہی حال ہالی ووڈ میں بھی دیکھنے کو ملا۔ ہالی ووڈ کے جن فنکاروں کا نام می ٹو مہم میں لیا گیا وہ تھے: ماریہ کیری، بل کاسبی، جن پر 60 خواتین کو ہراساں کرنے کے الزامات ہیں اور وہ عدالت سے سزا بھی پا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کیون اسپیسی، انتھونی رپ اور ہارلے ونسٹن، ان پر 80خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کئے ۔

می ٹو مہم کے تحت وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کو ملنے والی شکایات پر نظر ڈالیں تو ہراسگی کے خلاف تحفظ کیلئے وفاقی اومبڈز پرسن کشمالہ طارق کا کہنا ہے کہ سیکریٹریٹ کو روزانہ کی بنیاد پر ملنے والی شکایات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے یہ تعداد آٹھ تک تھی جو بڑھ کر اب ماہانہ چالیس ہوگئی ہے۔

کشمالہ طارق کے بقول ہراسگی کے زیادہ تر واقعات پورے ملک میں واقع سرکاری دفاتر میں پیش آئے۔ ہراسگی کے خلاف تحفظ کیلئے وفاقی اوم بڈز پرسن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق جولائی 2017 سے جون 2018 کی ایک سالہ مدت میں ہراسگی کے 244 واقعات پیش آئے۔ ان میں سے 144خواتین نے جبکہ 83 مردوں نے درج کرائے ۔ 73 کیسز سرکاری اور نیم سرکاری سیکٹر میں رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے 213 کیسز حل کرلئے گئے ہیں جبکہ 31 تاحال حل طلب ہیں۔

XS
SM
MD
LG