مارخور جنگلی بکرے کی قسم کا ایک پہاڑی چرندہ اور پاکستان کا قومی جانور ہے۔ ہمالیہ، قراقرم، ہندو کش اور کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں میں پائے جانے والے اس جانور کو اپنی نسل مٹنے کے خطرے کا سامنا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں اس کی پانچ اقسام ہیں جن میں سے تین اقسام پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ جنہیں سلیمان مارخور، کشمیر مارخور اور استور مارخور کہا جاتا ہے۔
سلیمان مارخور کوہ سلیمان میں پایا جاتا ہے۔ کشمیر مارخور چترال کے علاقے میں نظر آتا ہے اور استور مارخور کا مسکن گلگت کے علاقے ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے اس کے تحفظ کے لیے ٹرافی ہنٹنگ نامی ایک منفرد پروگرام جاری رکھا ہوا ہے۔
راولپنڈی میں قائم جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق ایک غیر منافع بخش ادارے، زون سفاری کے مینیجنگ ڈائریکٹر علی شاہ نے، جن کا ادارہ نایاب جانوروں کی غیر قانونی تجارت کے خاتمے اور ان کے تحفظ کے لیے حکومت کی معاونت کرتا ہے، وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مقامی کمیونٹی مارخو ر کو اس کے گوشت کی وجہ سے شکار کرتی تھی، جبکہ بین الاقوامی شکاری اس کا شکار سینگوں کی وجہ سے کرتے رہے ہیں۔ جن کی لمبائی چار فٹ کے لگ بھگ ہوتی ہے اور وہ ان کے لئے ٹرافی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
علی شاہ نے بتایا کہ جب شکار کی کثرت کی وجہ سے مارخور کی نسل مٹنے کے خطرات میں اضافہ ہوا تو پاکستان کی حکومت نے اس کے تحفظ کے لیے 1997 میں ایک منفرد قسم کا پروگرام ’مارخور ٹرافی ہنٹنگ‘ کے نام سے شروع کیا۔
وائس آف امریکہ کو اپنے ایک انٹرویو میں آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق وزارت کے بائیو ڈائیورسٹی ڈائریکٹوریٹ میں اس پروگرام کے ڈائریکٹر، نعیم اشرف راجہ نے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت، مقامی کمیونٹیز مارخور کا تحفظ کرتی ہیں اور انہیں اس کے صلے میں ایک بڑی رقم فراہم کی جاتی ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو غیر ملکی شکاریوں کو شکار کے پرمٹ فروخت کر کے حاصل کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مارخور کے محدود تعداد میں شکار کے پرمٹ پر حاصل ہونے والے محصولات کا 20 فیصد جنگلی حیات کے شعبے کو اور باقی 80 فیصد مقامی کمیونٹیز کو دیا جاتا ہے۔ مقامی کمیونیٹز میں اس پروگرام کے تحت ’ویلیج کنزرویشن کمیٹیاں‘ قائم کی گئی ہیں جو اس رقم کو مقامی آبادی کی صحت، تعلیم، نکاسی آب یا عوامی بھلائی کے کسی بھی منصوبے پر خرچ کر سکتی ہیں۔
زون سفاری کے علی شاہ نے بتایا کہ اس سال حکومت نے ملک بھر میں 12 بوڑھے مارخور وں کے شکار کے پرمٹ جاری کیے ہیں، جب کہ اس سال ایک مارخور کے شکار کا پرمٹ اس سال ایک لاکھ 10 ہزار ڈالر میں نیلام کیا گیا ہے۔
علی شاہ نے کہا کہ ان کا ادارہ، زون سفاری مقامی کمیونٹیز کو مارخور کا شکار کرنے سے روکنے اور اس کی حفاظت پر آمادہ کرتا ہے، جس کے بدلے میں انہیں مارخور کے شکار کا پرمٹ سے حاصل ہونے والے محصولات کا حصہ دلانے کے معاملات انجام دیتا ہے۔
مارخور ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے نعیم اشرف راجہ نے کہا کہ پروگرام سے مارخور کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور معدومی کے خطرے کا سامنا کرنے والا یہ قیمتی جانور اب نہ صرف اپنی نسل کے تحفظ کے لئے خود وسائل فراہم کر رہا ہے بلکہ تحفظ کرنے والی مقامی کمیونٹیز کو اپنی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے مالی وسائل کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے ذریعے بہت سی کمیونٹیز نے اپنے علاقوں میں چھوٹے بجلی گھر، اسکول، اسپتال اور مساجد بنائی ہیں۔
علی شاہ نے بتایا کہ اس پروگرام کے آغاز کے بعد سے چترال میں، جہاں مارخوروں کی تعداد سمٹ کر 300 سے 700 کے درمیان رہ گئی تھی، اب 4000 سے بڑھ چکی ہے۔ گلگت بلتستان میں اب مارخوروں کی تعداد کا تخمینہ 1800 ہے جب کہ بلوچستان میں بھی اس کی تعداد میں نمایاں بہتری آ گئی ہے، جس سے اس کا درجہ انتہائی نایاب جانور سے گھٹا کر نایاب جانور کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرافی ہنٹنگ پروگرام نہ صرف غیر ملکی شکاریوں کو پاکستان آنے کے لیے موقع فراہم کرتا ہے بلکہ مقامی لوگوں کو ان شکاریوں کے لیے گائیڈ، ڈرائیور باورچی اور دوسری ضروریات کی فراہمی کے ذریعے عارضی روزگار کا بھی ایک ذریعہ بنتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ غیر ملکی شکاری جب مقامی آبادیوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا کر اپنے ملکوں میں واپس جاتے ہیں تو وہ پاکستان اور پاکستانیوں کا تاثر بہتر بنانے میں گویا ان کے ایک سفیر کا کردار ادا کرتے ہیں۔