آئندہ چند روز میں پاکستان میں قائم ہونے والی عمران خان کی حکومت اس لحاظ سے ماضی کی حکومتوں سے مختلف ہے کہ نئی حکومت نے اپنے قیام سے قبل ہی بیرونی ملکوں میں آباد پاکستانیوں سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیں ہیں اور اسی طرح بیرونی ملکوں میں رہنے والے پاکستانیوں کی بھی عمران خان سے بہت سی توقعات ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ انہوں نے ترقی یافتہ ملکوں میں حقوق و فرائض کی ادائیگی اور ترقی کی جانب پیش رفت کا جو طریقہ کا ر دیکھا ہے، عمران کی انتظامیہ اسے اپنی ترجيحات میں پیش نظر رکھے گی اور ملک کو آگے لے کر چلے گی۔
گزشتہ دنوں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی امریکیوں نے پروگرام ’ہر دم رواں ہے زندگی‘ میں شرکت کی اور کہا کہ عمران کی نئی حکومت کو معیشت، توانائی، پانی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور ان کے لیے اس سے بھی بڑا چیلنج ان توقعات کو پورا کرنا ہےجو ملک کے اندر اور باہر پاکستانیوں نے ان سے باندھ رکھی ہیں۔
سیاٹل یونیورسٹی کے ڈائریکٹر سینٹر فار گلوبل جسٹس اور قانون کے پروفیسر ڈاکٹر طیب محمود کا کہنا تھا کہ یہ خیال کہ پاکستانی امریکی یا بیرون ملک آباد پاکستانی اپنے آبائی وطن کی معیشت کے فوری استحكام اور اسے رواں مالی بحران سے نکالنے میں کوئی بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں،حقیقت کے قریب نہیں ہے ۔تاہم ان کا موقف تھا کہ اگر نئی حکومت پاکستان میں سمندر پار پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کے لیے بہتر پالیسیاں اور قوانین بنائے اور پہلے سے موجود قوانین میں بہتری لا کر ان پر عمل کرے تو وہ یقینی طور پر بیرونی ملکوں کے پاکستانیوں کی ملک میں سرمایہ کاری اس کے معاشی استحکام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ خیال بھی حقیقت کے نزدیک نہیں ہے کہ بیرونی ملکوں سے کرپشن کی دولت واپس لانے سے ملک کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ دولت کی واپسی کو اپنی پالیسیوں کا حصہ ضرور بنایا جانا چاہیے لیکن صرف اسی پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کرپشن کا پیسہ واپس لانے کے لیے پاکستان میں قانونی فریم ورک تو موجود ہے لیکن ان پر کام کرنے کے لیے شفافیت، توجہ اور بہت وقت درکار ہو گا۔ اور اگر یہ کام کسی سیاسی انتقام کی وجہ سے یا کسی جماعتی وابستگی کی وجہ سے کیا گیا تو اس میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔
ڈیلس ٹیکساس میں قائم ایک امریکی کمپنی ٹچ اسٹون کمیونیکیشنز کے جنرل مینیجر یوسف ہمایوں نے کہا کہ ان کی کمپنی پہلے ہی پاکستان میں آئی ٹی کا کامیابی سے کاروبار کر رہی ہے لیکن عمران خان کے آنے سے ان کی توقعات بہت بڑھ گئی ہیں ۔تاہم انہوں نے کہا کہ نئی حکومت نے جتنی توقعات بیرون ملک پاکستانیوں سے باندھ لی ہیں وہ انہیں پورا نہیں کر سکتے لیکن اگر سب مل کر ایک مشترکہ مقصد سے آگے بڑھیں تو ان توقعات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں جو وعدے اور دعوے کیے تھے وہ انہیں پورا کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پانی کا مسئلہ ، آبادی کا مسئلہ اور دفاعی اخراجات پر بے تحاشا اخراجات کا مسئلہ، یہ وہ تین مسائل ہیں جن پر انہیں ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔
جارجیا اٹلانٹا کے گلوبل سوشل انٹریپرینیورشپ فاؤنڈیشن کے فاؤنڈراور پاکستان میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے ایک سرمایہ کارمحمد صدیق نے کہا کہ وہ خود پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا ایک کامیاب بزنس کر رہے ہیں اور عمران خان کی حکومت سے ان کی توقعات بہت زیادہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں پاکستانی امریکیوں اور بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے سرمایہ کاری کے ضمن میں بہت سے چیلنج ہیں لیکن ا س کے لیے وہاں جتنے زیادہ چیلنج ہیں اتنے ہی زیادہ مواقع بھی ہیں۔
اوور سیز گلوبل فاؤنڈیشن کے فاؤنڈر اور چیئرمین ظہیر احمد مہر نے کہا کہ سمندر پار آباد پاکستانیوں کو عمران خان کی نئی حکومت سے بہت توقعات ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ عمران خان ان توقعات پر پورا اتریں گے۔ انہوں نے تجویز دی کہ نئی حکومت پاکستان کی اسمبلی میں بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے بھی اسی طرح ریزرو سیٹس رکھے جس طرح اقلیتوں اور خواتین کے لئے رکھی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کے لیے ان کی تجویز ہے کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام لائیں، ایسے مواقع پیدا کریں جو سمندر پار آباد پاکستانیوں کو وہاں سرمایہ کاری پر راغب کریں، ایسی اسکیمیں لائیں جنہیں آئینی ضمانتیں حاصل ہوں تاکہ اوور سیز پاکستانی وہاں اپنا سرمایہ اور صلاحیتں آزمائیں، لیکن سب سے اہم بات یہ کہ وہ پاکستان کے مشترکہ مقاصد کے لیے حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلیں۔
بالٹی مور کاؤنٹی کی ڈیمو کریٹک اسٹیٹ سینٹرل کمیٹی کی رکن عائشہ خان نے کہا کہ انہیں عمران خان سے بہت سی توقعات ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ وہ پاکستان کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں بیرون ملک آباد پاکستانیوں کی ریزرو سیٹس کے مطالبے پرپاکستانی امریکیوں کو مل کر ضابطوں کے تحت عمل کرنا چاہیے۔
مضبوط حزب اختلاف سے متعلق ایک سوال کا جواب میں پروفیسر ڈاکٹر طیب محمود نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی نئی متوقع حکومت کو ایک مضبوط حزب اختلاف کی موجودگی میں قانون سازی میں مشکل پیش آئے گی لیکن انہیں خدشہ حزب اختلاف سے نہیں بلکہ ان طاقتوں سےہے جن کاپارلیمان سے یا سیاسی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ میدان نہیں چھوڑتیں، اور وہ حکومت کو اتنا مستحکم نہیں ہونے دیتیں جتنا کہ اسے ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سویلینز کوحکومت تو مل جاتی ہے مگر اختیار نہیں ملتا۔ اس بار بھی چونکہ واضح مینڈیٹ کے ساتھ کوئی جماعت سامنے نہیں آئی، اس لیے یہ خدشہ بدستور بر قرار رہے گا ۔ اور ابھی تک واضح نہیں ہوا کہ پارلیمنٹ کو اہم اقتصادی، خارجہ اور دفاعی فیصلے کرنے کا کتنا اختیار ہو گا۔