وسیم صدیقی
جی ہاں، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنی نوعیت کا پہلا’ روٹی بینک ‘کھل گیا ہے۔ اس بینک سے ضرورت مند جب چاہئیں دو وقت کا کھانا لے سکتے ہیں اور جن کے پاس اپنی ضرورت کے بعد کھانا بچ جائے وہ یہاں’ جمع‘کرا سکتے ہیں۔
اس’ روٹی بینک ‘کی ایک اور خاصیت مفت’ ہوم ڈلیوری ‘بھی ہے اور وہ بھی پوری طرح راز داری کے ساتھ۔
’ روٹی بینک‘کے ایک عہدیدار حارث علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’ اس بینک کے قیام کا مقصد سفید پوش لوگوں کی مدد کرنا ہے۔ شہر میں جگہ جگہ دسترخوان لگتے ہیں جہاں راہ گیر وں کو مفت کھانا کھلایا جاتا ہے لیکن کچھ ’وائٹ کالرز ‘سڑک کنارے بیٹھ کر کھانے میں شرم محسوس کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ کسی جاننے والے سے دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔۔یہ ’روٹی بینک ‘انہی وائٹ کالر ز یا سفید پوش لوگوں کی مدد کے لئے کھولا گیا ہے۔ ‘‘
حارث نے وی او اے کے ایک سوال پر بتایا’ کوئی بھی وائٹ کالر یا ضرورت مند شخص اپنا اور اپنی اہلیہ کا شناختی کارڈ اور بچوں کا برتھ سرٹیفکیٹ کی فوٹو کاپی ہمارے پاس جمع کرا کے دونوں وقت کا کھانا اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے ۔ ہر فیملی کی فائل ہم الگ رکھتے ہیں اور پوری راز داری برتے ہیں ۔ ‘
روٹی بینک ‘کراچی کی ایک رفاعی تنظیم سیلانی ٹرسٹ نے شروع کیا ہے ۔ٹرسٹ کے منیجر زوہیب نے بتایا کہ ٹرسٹ نے بڑے پیمانے پر ایک کچن قائم بنا رکھا ہے جہاں دونوں وقت کھانا بنتا اور باقاعدہ کمرشل انداز میں پیک ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسے ہر دوپہر اور شام کو’ روٹی بینک ‘بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے ضرورت مند اسے لے جاتے ہیں یا پھر گھروں پر ارسال کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ ایک دن میں تقریباً گیارہ سو افراد کا کھانا تقسیم کیا جاتا ہے ۔ یہ تمام خرچ لوگوں کی جانب سے ملنے والے چندے اور امدادی رقم سے پورا ہوتا ہے ۔ بےشمار لوگ فی کس کے حساب سے بھی روزانہ کی بنیاد پر رقم دے جاتے ہیں۔ ایک فرد کے کھانے کے 50روپے لیے جاتے ہیں اس لحاظ سے کوئی دس تو کوئی پندرہ اور بعض لوگ اس سے بھی کہیں زیادہ افراد کے کھانے کے لئے نقد رقم دے جاتے ہیں۔
کراچی میں ضرورت مندوں کو مفت کھانا کھلانے کے لئے ایک دو نہیں متعدد رفاعی تنظیمیں اور ادارے کام کررہے ہیں۔ سرجانی ٹاؤن میں پروین نامی ایک خاتون صرف تین روپے میں ایک وقت کا کھاناکھلاتی ہیں اور برسوں سے ان کا یہی معمول ہے۔
چھیپا نامی مشہور فلاحی ٹرسٹ بھی اپنے طور پر یہ انسانی خدمت انجام دے رہا ہے۔ شہر کے ہر حصے اور علاقے میں مختلف چوراہوں پر دوپہر کا سورج چڑھنے اور رات کا اندھیرا چھانے سے ذرا پہلے ’چھیپا دسترخوان ‘سج جاتے ہیں۔ ان دسترخوانوں پر دال روٹی اور سبزی ہی نہیں گائے اور بکرے کے گوشت کا سالن ملنا بھی معمول کی بات ہے۔ بے شمار لوگ صدقوں کی غرض سے بکرے ذبح کراتے اور چھیپا ٹرسٹ کو دے جاتے ہیں۔
پورے ملک میں مشہور ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی’ بحریہ‘بھی اس خدمت پر مامور ہے ۔ ’ بحریہ دسترخوان‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں آنے والوں کو سرراہ بیٹھنا نہیں پڑتا بلکہ’ بحریہ دسترخوان‘ کو دیکھ کر کسی بڑے ہوٹل کا گمان ہوتا ہے۔ نہایت صاف ستھرا ماحول، بہترین کھانے، ائیرکنڈیشن ماحول، باوردی ملازم، مہنگی کٹلری اور قیمتی برتن۔
رفاعی تنظیم کے ایک کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا کہ’ بے شک بھوکے کو روٹی کھلانا بہت بڑی نیکی ہے لیکن کہیں ایسا تو نہیں اس کوشش میں ہم معاشرے کے افراد کو کھانے کی مفت سہولتیں دے کر انہیں ان کی ذمے داریوں سے راہ فرار کا موقع دے رہے ہوں؟ ‘
کارکن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح نوجوانوں میں محنت کرنے کا جذبہ کم ہو جائے گا، خاص طور سے بچے ۔۔کم عمری سے ہی ان کے عادی ہوجائیں گے، ان میں اپنا مستقبل بنانے، حالات کو بدلنے اور اپنے لئے باعزت روزگار کے مواقع تلاش کرنے کا جذبہ ہی ختم ہو جائے گا۔ وہ شروع ہی سے دوسروں کے کندھوں کے عادی ہوجائیں گے ۔‘‘
وی او اے کے نمائندے نے اس پر ایک اور فلاحی تنظیم عالمگیر ویلفیئرٹرسٹ کے منیجر شکیل دہلوی سے گفتگو کی تو ان کا موقف تھا کہ’ انسان کا پیٹ خالی ہو تو جرائم کی راہ نکلتی ہے ۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے انسان کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ بے روزگاری بہت بڑا عذاب ہے، بچے بھوک سے بلک رہے ہوں تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے ۔ اگر مفت د سترخوان سے معاشرے کے لوگوں کی خود انحصاری کی عادت ختم ہونے کا خدشہ ہے تو بہت سے سنگین مسائل بھی تو حل ہورہے ہیں۔ ‘
پاکستان کو غذائی قلت کا سامنا
انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسر چ انسٹی ٹیوٹ، واشنگٹن کی جاری کردہ’ گلوبل ہنگرانڈیکس‘یعنی جی ایچ آئی‘2017کے مطابق پاکستان کو غذائی قلت کی شکل میں سنجیدہ خطرے کا سامنا ہے اور آنے والے برسوں میں صورت حال سنگین ہو سکتی ہے۔ غذائی کمی اور بھوک کا شکار 119 ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 106 ہے جبکہ انڈکس میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی شرح یا اسکور اسے ’خطرناک ‘کیٹگری کی جانب لے جا رہا ہے۔