نصرت شبنم ، لندن
دنیا بھر میں ہر سال فروری کا ایک دن دل والوں کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے محبت کے عالمی دن پر لوگ اظہار کے لیے لفظوں کے بجائے پھولوں کا سہارا لیتے ہیں اس روز محبتیں سرخ گلاب کی صورت میں مہکتی ہیں ، لہجے کی شیرنی چاکلیٹ کی مٹھاس بن جاتی ہے تو کہیں خوشبوں کا تحفہ احساس کے اس در کو کھول جاتا ہے جہاں سالوں سے قفل پڑی ہوتی ہے 14 فروری یا ویلنٹائن ڈے مغربی دنیا میں ایک تہوار کی طرح ہی منایا جاتا ہے۔
دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح لندن میں بھی اس دن کومنانے کے حوالے کئی دن پہلے سے ہی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اس موقع پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے تحائف مثلا پھول ،چاکلیٹ ، پرفیوم اور ہینڈ بیگز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں اور سرخ گلابوں کا گلدستہ اس روز محبوب کی جیب کا امتحان لیتا نظر آتا ہے۔
اس بات کا اندازا مجھے تب ہوا جب میں ویلنٹائن ڈے پر اپنی پانچ سالہ بیٹی کی کلاس ٹیچر کے لیے گلاب کا بوکے خریدنے گئی ۔ اس کی فرمائش تھی کہ ، وہ ٹیچرکو خوش کرنا چاہتی ہے مجھے بھی اس کی چاہت کے اظہار پر کوئی اعتراض نہیں تھا اسی لیے اس کے سبھی دوستوں کے لیے ویلنٹائن ڈے کارڈز بھی خرید ڈالے۔
ایک اسپشل ویلنٹائن کارڈ میری پڑوسی لڑکی ثمرین کے لیے بھی تھا جو میری بیٹی کی فیورٹ آنٹی ہے ثمرین کی عمر شاید سترہ یا اٹھارہ سال ہو گی وہ اے لیول میں پڑھ رہی ہے بڑی ہی سیدھی سادھی اور معصوم لڑکی ہے ثمرین نے ویلنٹائن کارڈ پڑھتے ہوئے مجھے سے پوچھا کہ ،آپ آج کے دن میں کیا اسپشل کرتی ہوں ؟
میں نے ہنستے ہوئے اسے چھیٹرا یہ توخاص تمھارا دن ہے ۔
البتہ ہم بھی اس دن کو یونہی جانے نہیں دیتے ہیں شام میں ہسبنڈ سے پھولوں کا گلدستہ مل جاتا ہے اورآخر میں ایک اچھا سا ڈنر البتہ ویک اینڈ پر ویلنٹائن ڈے کی پارٹی میں جانا ہے سو کل مزا آئے گا ۔
اور تم کیسے منارہی ہو ؟ مجھے اپنے ہی سوال نے گڑ بڑا کر رکھ دیا میرا مطلب ہے کہ ،تم نے اپنی امی بہن بھائیوں کے لیے کیا کیا تحائف خریدے ہیں ۔
نہیں ہم ویلنٹائن ڈے نہیں مناتے ہیں یہ ہمارا دن نہیں ہے ۔اس نے مجھے رٹے رٹائے سبق کی طرح اس ایک جملے میں وہ ساری کہانی سنا دی تھی جو بڑے ہونے کے بعد اسے اچھی طرح سمجھائی جا چکی تھی ۔
لیکن تمھاری امی نے بتایا تھا کہ ، وہ ہر سال خاموشی سے تمھارے پاپا کے لیے تحفہ خریدتی ہیں اور شام میں اچھا سا کھانا بھی بناتی ہیں اسی طرح تو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے دیکھو ہماری طرح گورے گھرانوں میں بھی ویلنٹائن ڈے گھر پرسب کے ساتھ ملکر منایا جاتا ہے سب لوگ کلب تھوڑی نا جاتے ہیں ۔
ہم ویلنٹائن ڈے کو کیسے منائیں ؟ امی کو پسند نہیں ہے کہ ، میں اور بھائی اس قسم کی خرافات میں پڑیں یہ وہ سوال ہے جو دو مختلف ثقافتوں کے بیچ پل بڑھ کر جوان ہونے والی نئی نسل کی نمائندہ ثمرین نے مجھ سے کیا تھا .
مغرب میں رہنے والے بہت سے ایشیائی گھرانوں میں مغربی تہواروں کو منانے کے حوالے سے خاصی کشمکش دکھائی دیتی ہے ،بچپن میں بیٹی کے ہاتھ میں ویلنٹائن کارڈز اور کلاس ٹیچر کے لیے گلاب کاپھول بھیجنے والے والدین بچوں کے جوان ہونے پر انھیں مغربی معاشرے کے طور طریقوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں ۔
ہماری مجبوری یہ بھی ہے کہ ،ہم مغربی معاشرے کے طور طریقوں سے پوری طور پر سمجھوتا نہیں کر سکتے ہیں جہاں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے رشتے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے اور رشتے کا جڑنا اور ٹوٹنا اتنا بڑا ایشیو نہیں سمجھا جاتا ہے ۔
ثقافتوں کے اتنے بڑے تضاد کے باوجود اکثر مشرقی گھرانوں میں مغربی طور طریقوں کو اپنے انداز میں ڈھال کر معاشرے کا ساتھ چلنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے لوگوں کی سوچ آج بھی محدود دکھائی دیتی ہے ۔