تھائی لینڈ کی حکومت نے ایک مخالفانہ مظاہرے سے قبل، جو ہفتے کو بنکاک میں ہورہاہے، پیشگی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ہنگامی اختیارات استعمال کرنے کااعلان کیا ہے۔
پولیس ذرائع کاکہناہے کہ مظاہرے میں 70 ہزار سے زیادہ افراد شرکت کرسکتے ہیں اور یہ مظاہرہ 2010 کے بعد سب سے بڑا مظاہرہ ہوگا۔
جمعرات کو دیر گئے ٹیلی ویژن پر اپنی تقریر میں تھائی لینڈ کی وزیر اعظم ینگ لک شنواترا نے کہا کہ ان کی کابینہ نے مجوزہ مظاہرے سے تشدد بھڑک اٹھنے کے خطرے کے پیش نظر سیکیورٹی ایکٹ کے نفاذ کا فیصلہ کیاہے۔
وزیر اعظم کا کہناہے کہ حکام کو ایسے شواہد ملے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مظاہرین حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ چنانچہ امن وامان اور قانون کی عمل داری قائم رکھنے کے لیے سیکیورٹی ایکٹ کے اطلاق کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انٹرنل سیکیورٹی ایکٹ 2008 میں منظور ہوا تھا جس کے تحت حکومت کو کرفیو، الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر سینسر لگانے، لوگوں کی نقل وحرکت محدود کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
حکومت نے مظاہروں کی نگرانی کے لیے پولیس اور سیکیورٹی کے ہزاروں اہل کار تعینات کردیے ہیں۔
لیکن مظاہرہ منظم کرنے والے گروپ کے ایک ترجمان کا کہناہے کہ بدعنوان اور نااہل عہدے داروں پر مشتمل حکومت مظاہرے سے خوف زدہ ہے۔
حکومت مخالف تنظیم پیٹاک سیام ، جس کی قیادت فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل کے پاس ہے، اس سے پہلے بھی ایک بڑا مظاہرہ کرچکی ہے اور تنظیم کو توقع ہے ہفتے کے روز ہونے والے مظاہرے میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد شریک ہوں گے۔
حکومت مخالف مظاہرہ ایک ایسے موقع پر ہورہاہے جب پارلیمنٹ چند روز بعد وزیر اعظم ینگ لک کی انتظامیہ پر رشوت اور کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے عدم اعتماد کی قرار داد پیش کرنے والی ہے۔
پولیس ذرائع کاکہناہے کہ مظاہرے میں 70 ہزار سے زیادہ افراد شرکت کرسکتے ہیں اور یہ مظاہرہ 2010 کے بعد سب سے بڑا مظاہرہ ہوگا۔
جمعرات کو دیر گئے ٹیلی ویژن پر اپنی تقریر میں تھائی لینڈ کی وزیر اعظم ینگ لک شنواترا نے کہا کہ ان کی کابینہ نے مجوزہ مظاہرے سے تشدد بھڑک اٹھنے کے خطرے کے پیش نظر سیکیورٹی ایکٹ کے نفاذ کا فیصلہ کیاہے۔
وزیر اعظم کا کہناہے کہ حکام کو ایسے شواہد ملے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مظاہرین حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ چنانچہ امن وامان اور قانون کی عمل داری قائم رکھنے کے لیے سیکیورٹی ایکٹ کے اطلاق کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انٹرنل سیکیورٹی ایکٹ 2008 میں منظور ہوا تھا جس کے تحت حکومت کو کرفیو، الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر سینسر لگانے، لوگوں کی نقل وحرکت محدود کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
حکومت نے مظاہروں کی نگرانی کے لیے پولیس اور سیکیورٹی کے ہزاروں اہل کار تعینات کردیے ہیں۔
لیکن مظاہرہ منظم کرنے والے گروپ کے ایک ترجمان کا کہناہے کہ بدعنوان اور نااہل عہدے داروں پر مشتمل حکومت مظاہرے سے خوف زدہ ہے۔
حکومت مخالف تنظیم پیٹاک سیام ، جس کی قیادت فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل کے پاس ہے، اس سے پہلے بھی ایک بڑا مظاہرہ کرچکی ہے اور تنظیم کو توقع ہے ہفتے کے روز ہونے والے مظاہرے میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد شریک ہوں گے۔
حکومت مخالف مظاہرہ ایک ایسے موقع پر ہورہاہے جب پارلیمنٹ چند روز بعد وزیر اعظم ینگ لک کی انتظامیہ پر رشوت اور کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے عدم اعتماد کی قرار داد پیش کرنے والی ہے۔