امریکہ میں پھنسی فرازے کہتی ہیں کہ انہیں ایک ماہ گزر جانے کے بعد بھی یہ نہیں معلوم کہ کب تک انہیں اپنی بیٹی سے دور شدید پریشانی میں گزارہ کرنا ہو گا۔
کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے میں اپنی مدد آپ کے تحت اسلام آباد کے کچھ رہائشی نہ صرف گھر گھر ضروریات زندگی کا سامان پہنچا رہے ہیں بلکہ صفائی کا انتظام بھی کر رہے ہیں۔ جانتے ہیں اسلام آباد سے اس ڈیجیٹل رپورٹ میں
پاکستان کی سول ایوی ایشن نے کب، کیا اور کون سا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اور اس میں کیا ردو بدل ہوئے؟ یہ سب معلومات اس وقت بیرون ملکوں میں پھنسے پاکستانیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ وطن واپسی کے خواہش مند پاکستانی کن حالات سے گزر رہے ہیں؟ جانیے گیتی آرا کی زبانی
کرونا وائرس کے سبب زیادہ تر لوگ دفتری کام بھی گھروں سے ہی کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ اپنی پیشہ ورانہ ضروریات اور دفتری قوائد و ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف ایپس کا انتخاب کر رہے ہیں۔ کون سی ایپلی کیشنز آج کل زیادہ استعمال ہو رہی ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
کرونا وائرس کا تاحال دنیا میں کوئی علاج موجود نہیں۔ لیکن ماہرین کے بقول یہ تصور کر لینا کہ کرونا وائرس کا شکار ہو جانا موت کا پروانہ ہے، مبالغہ آرائی سے کم نہیں۔ ویکسین کی عدم موجودگی میں اس بیماری سے کیسے بچا جائے؟ جانیے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر فیصل محمود کی زبانی۔
ڈاکٹر فیصل کہتے ہیں یہ جاننا ضروری ہے کہ کرونا وائرس انسان سے انسان کو منتقل ہونے والا مرض ہے۔ جو کسی بھی شخص کو متاثرہ شخص کی آنکھ، ناک اور منہ کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔
کرونا وائرس نے شہروں اور ملکوں کی حالت کچھ ایسے بدلی ہے کہ میڈیا اور صحافت سے جڑے افراد بھی پہلی بار دفتروں اور فیلڈ سے دور رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ماہرِ تعلیم عارفہ سیدہ زہرا کہتی ہیں کہ ہم نے بہت سالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ڈگری کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ ہم طوطے نہیں انسانوں کو پڑھاتے ہیں لیکن اُن سے کام نہیں لیتے۔ اُن کے بقول ہم کندھوں کا بوجھ بڑھا رہے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ بڑا ضروری لفظ تربیت تھا لیکن اب تعلیم کے ساتھ تربیت نہیں رہی۔
پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے آٹھ میچز راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں بھی ہوں گے۔ اس اسٹیڈیم نے اس سے قبل کون کون سے اہم میچز کی میزبانی کی ہے اور یہاں میچ ہونا جڑواں شہروں کے رہائشیوں کے لیے کتنا اہم ہے؟ جانتے ہیں اس ویڈیو میں
بعض ناقدین کا یہ خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر افغان مہاجرین کی موجودگی سے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ بعض تجزیہ کاروں کے بقول اس سے پاکستان میں پشتو زبان کی ترویج کے علاوہ ایک نئی ثقافت اور معاشرت کو فروغ ملا ہے۔
اسلام آباد میں کوئٹہ ٹی اسٹالز کے نام سے مشہور چائے خانے ہر بڑی مارکیٹ میں موجود ہیں۔ موسمِ سرما میں دن ہو یا رات یہاں رش لگا رہتا ہے۔ شہری کہتے ہیں کچھ بھی کر لیں گھر میں ایسی چائے نہیں بنا سکتے۔ ان کی چائے پی کر جو راحت ملتی ہے وہ فائیو اسٹار ہوٹل کی چائے بھی پی لیں، وہ لطف نہیں آتا۔
ماہرین کے مطابق اب تک کے اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں کہ دنیا کسی بڑی جنگ کی طرف نہیں بڑھ رہی۔ جب بھی کہیں سیاسی کشیدگی یا جنگ کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو کئی معاشی اعشاریے اس جنگ کی سنگینی کا پتا دیتے ہیں۔
اسلام آباد میں جوتوں کی ایک دکان ہاتھ سے بنائے گئے جوتوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس دکان کا مالک خاندان لگ بھگ 80 برسوں سے ہینڈ میڈ جوتوں کا کاروبار کر رہا ہے۔ دکان کے مالک کے بقول کرکٹر وسیم اکرم، انضمام الحق اور سعید انور سمیت کئی نامور شخصیات ان کے خریداروں میں شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد حنیف نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والی ایک ایجنسی نے ان کے ناشر مکتبہ دانیال پر مبینہ طور پر چھاپا مارا۔ وہاں سے ان کی کتابیں اٹھا لی گئیں اور ان دکانوں کی فہرست بھی لی گئی جہاں کتابوں کا اسٹاک موجود تھا۔
ماہر قانون علی ظفر کہتے ہیں کہ ایسی شق کا یہ فائدہ ضرور ہو سکتا ہے کہ سول یا چھوٹی عدالتیں افواج کے سربراہان کے حوالے سے کوئی پٹیشن سننے کی مجاز نہیں رہیں گی، مگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اس سے مبرا ہیں۔
ڈان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حمید ہارون کبھی جامی سے تنہائی میں نہیں ملے اور ان سے ملاقاتیں بہت محدود اور پیشہ وارانہ نوعیت کی تھیں۔
پاکستان میں آنے والے 2005 کے زلزلے کے دوران اسلام آباد کے مرگلہ ٹاورز جیسی مہنگی اور بظاہر مضبوط عمارت چند منٹوں میں ہی زمین بوس ہو گئی تھی۔ ایسے میں موجودہ حکومت کا ’گو ورٹیکل‘ یعنی کثیر المنزلہ عمارتیں بنانے کے فیصلے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
معروف فلم ساز ایم رشید کی صاحبزادی رافعہ رشید اسلام آباد میں ایک ڈھابہ چلا رہی ہیں۔ والد کے انتقال کے بعد مالی مسائل کی وجہ سے اُنہوں نے خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ رافعہ کبھی ماضی کو یاد کرتی ہیں لیکن پھر حال کی پریشانیوں میں کھو جاتی ہیں۔ مزید دیکھیے گیتی آرا کی ڈیجیٹل رپورٹ
سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد پاکستان میں عدالتوں کے فیصلوں پر بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ جب جمہوری حکومتیں اور انتظامی ادارے کمزوری دکھائیں تو تب ہی عدالتیں متحرک ہوتی ہیں۔
پاکستان میں عدالتوں کی جانب سے عوامی مفاد اور سماجی مسائل کے معاملات کا از خود نوٹس لینے کی روایت حالیہ برسوں میں پروان چڑھی ہے۔ عدالتوں کے اس رویے کو جوڈیشل ایکٹو ازم کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ جوڈیشل ایکٹو ازم کیا ہے، اس کا فائدہ یا نقصان کیا ہے اور اس کے دائرے کا تعین کون کرے گا؟ جانیے اس ویڈیو میں۔
مزید لوڈ کریں