رسائی کے لنکس

کیا اسلام آباد کثیر المنزلہ عمارتوں کے لیے محفوظ ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد یوں تو اپنی خنک فضا اور مرگلہ کی پہاڑیوں اور قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے لیکن اس کا ایک خطرناک تعارف یہ بھی ہے کہ یہ شہر ٹیکٹانک فالٹ لائن پر واقع ہے۔

ٹیکٹانک فالٹ لائن ایسی زمین کو کہا جاتا ہے جو زلزلوں کی زد میں ہو۔ پاکستان میں آنے والے 2005 کے زلزلے کے دوران جہاں اسلام آباد میں جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔ وہیں یہ بھی دیکھا گیا کہ مرگلہ ٹاورز جیسی مہنگی اور بظاہر مضبوط عمارت چند منٹوں میں ہی زمین بوس ہو گئی تھی۔

ایسے میں موجودہ حکومت کا ’گو-ورٹیکل‘ یعنی دارالحکومت میں کثیر المنزلہ عمارتیں بنانے کا فیصلہ کس حد تک درست ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے اسلام آباد کی زمینی ساخت کو پرکھنے کے لیے ماہرین ارضیات کی جانب سے ہیزرڈ زوننگ کی گئی ہے۔

اس عمل کا حصہ رہنے والے ارضیات کے ایک ماہر ڈاکٹر طاہر عظیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہیزرڈ زوننگ کی کیٹگری کے لحاظ سے اسلام آباد بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کے لیے نامناسب ہے۔

لیکن شہر میں نظر آنے والی اونچی عمارتوں میں سے کئی ایک کے مالک عارف جیوا کہتے ہیں کہ زلزلے کے نقصانات سے بچنے کے معتدد طریقے موجود ہیں۔ لہٰذا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔

2005 کے زلزلے میں اسلام آباد کے مرگلہ ٹاورز کی عمارت زمین بوس ہو گئی تھی۔ (فائل فوٹو)
2005 کے زلزلے میں اسلام آباد کے مرگلہ ٹاورز کی عمارت زمین بوس ہو گئی تھی۔ (فائل فوٹو)

عارف جیوا نے کہا کہ اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں متوسط طبقے کے لیے زمین خرید کر مکان تعمیر کرنا نا ممکن ہو گیا ہے۔ ان کے نزدیک اس مسئلے کا حل صرف بلند رہائشی عمارتوں کی تعمیر ہے۔

عارف جیوا کے مطابق دنیا بھر میں رہائشی زمین کی زیادہ قیمت اور ماحولیات بہتر رکھنے کیے لیے اونچی عمارتوں میں رہائش کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

رہائشی ضروریات کے پیشِ نظر کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے کچھ عرصہ قبل ایک کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا تھا جس میں کثیر المنزلہ عمارتوں سے متعلق قوائد و ضوابط وضع کیے جانے تھے۔

سی ڈی اے کے پلاننگ اور ڈیزائن سے متعلقہ رکن ڈاکٹر شاہد محمود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کا ماسٹر پلان 60 کی دہائی میں بنا تھا جس میں یہ شرط تھی کہ ہر 20 سال بعد ماسٹر پلان کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان کے بقول بد قسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔

ڈاکٹر شاہد محمود نے کہا کہ نئے کمیشن نے ماسٹر پلان کے مختلف پہلوؤں کا از سرِ نو جائزہ لیا ہے اور بلند عمارتوں کی تعمیر کے لیے مخصوص جگہوں کا تعین بھی کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ممکنہ زلزلوں کے پیشِ نظر ابھی صرف نو منزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے اور اس مقصد کے لیے ہائی ویز اور دیگر بڑی شاہراہوں کے اطراف کی زمین استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

سی ڈی اے کے عہدے دار نے بتایا کہ حکومت چاہتی ہے کہ رہائشی اپارٹمنٹس بنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

اس سوال کے جواب میں کہ ان اقدامات کے ذریعے زلزلے کے نقصانات سے کیسا بچا جا سکتا ہے؟ ڈاکٹر شاہد محمود کا کہنا تھا کہ زلزلے کوئی ایسی قدرتی آفت نہیں ہیں جو صرف پاکستان تک محدود ہو۔

انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ طرزِ تعمیر اور ڈیزائن بہت ترقی کر چکے ہیں جو زلزلے کے نقصانات کو کم کر سکتے ہیں۔

ان کے بقول حکومت نے ایک سروے بھی کرایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم 50 فی صد لوگ اپارٹمنٹس میں رہنے کو محفوظ سمجھتے ہیں۔

جہاں سی ڈی اے نو منزلہ عمارت کی اجازت دیتے ہوئے اس بات سے مطمئن ہے کہ اس اقدام سے رہائش کے مسائل کسی حد تک قابو میں آ سکتے ہیں۔ وہیں عارف جیوا جیسے بلڈرز ان اقدامات کو ناکافی تصور کر رہے ہیں۔

عارف جیوا کا کہنا ہے کہ نو منزلہ عمارت کو بلند عمارت کہنا مناسب ہی نہیں۔ ان کے بقول دنیا میں 100، 100 منزلہ عمارتیں بنائی جا رہی ہیں۔ اسلام آباد میں کم از کم 20 سے 30 منزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت وقت کی ضرورت ہے۔

عارف جیوا نے کہا کہ یہ فرسودہ باتیں ہیں کہ اونچی عمارت بنے گی تو زلزلے کی نذر ہو جائے گی۔ جاپان کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جتنے زلزلے جاپان میں آتے ہیں، اس حساب سے تو وہاں ایک بھی اونچی عمارت نہیں ہونی چاہیے۔

عارف جیوا کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں بھی اب ایسی جدید ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے اونچی عمارتوں کو زلزلے سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

بلند عمارتوں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر حکومت اور بلڈرز تو متفق نظر آتے ہیں۔ لیکن ارضیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ خطہ ہمیشہ سے زلزلوں کی زد میں رہا ہے اور یہاں زلزلوں کی ہزاروں سالہ تاریخ موجود ہے۔

ڈاکٹر طاہر عظیم کے مطابق اس بات کے سائنسی شواہد موجود ہیں کہ اس خطے میں چھے سے آٹھ ریکٹر اسکیل تک کا زلزلہ کبھی بھی آ سکتا ہے۔

ان کے بقول دوسری طرف پاکستان میں بین الاقوامی معیار کی طرزِ تعمیر ابھی عام نہیں ہوئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کو اوپر اٹھانے کے بجائے بہتر یہ ہوگا کہ اسلام آباد کے ارد گرد چھوٹے شہر تعمیر کیے جائیں، تاکہ رہائش کا محفوظ انتظام یقینی بنایا جا سکے۔

خیال رہے کہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق اسلام آباد کی کل آبادی 20 لاکھ نفوس سے تجاوز کر چکی ہے۔ لیکن دار الحکومت میں رہائش کے مواقع اس رفتار سے نہیں بڑھ رہے اور شہر کے رہائشی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    گیتی آرا

    گیتی آرا ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے نیوز اور فیچر سٹوریز تحریر اور پروڈیوس کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG