پاکستان کی جانب سے دنیا کے سات براعظموں کی بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والے کوہ پیما مرزا علی بیگ کے مطابق کوہ پیماؤں کے مختلف رُوپ ہوتے ہیں۔ لیکن محمد علی سدپارہ بہت زیادہ مضبوط اور بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ نفیس اور عاجز انسان تھے۔
پشاور میں ایک ایسا بک کیفے قائم کیا گیا ہے جہاں لوگ کھانوں اور مشروبات سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اسی بک کیفے کی شکل میں لوگوں کو ایک پرسکون کام کی جگہ بھی میسر ہے اور لوگ یہاں اپنے دفاتر کے کام بھی کر لیتے ہیں۔ اس کیفے کی سیر کرا رہے ہیں نذر الاسلام اس ڈیجیٹل رپورٹ میں۔
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی، کے ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی کوشش میں پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی سے تعلق رکھنے والے ہوان پابلو مور پانچ فروری سے لاپتا ہیں۔
کوہ پیمائی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلندی پر صرف چند گھنٹے تک ہی زندہ رہنا ممکن ہے۔
آئندہ سات روز تک خراب موسم کی پیش گوئی ہے۔ مہم جو کے ٹو بیس کیمپ سے اسکردو روانہ ہو گئے ہیں۔
الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق موسم کے صاف ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل پیر کو سرچ آپریشن میں ٹیم کو مختلف مقامات پر کوہ پیماؤں کے چند شواہد ملے تھے۔
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کا کہنا ہے کہ آج موسم بہت زیادہ خراب ہے۔ ہیلی کاپٹرز بلند پراوزیں نہیں کر سکیں گے۔
علی سد پارہ اور ان کی ٹیم کا جمعہ کی شام سے بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہے۔ جس کے بعد گزشتہ روز آرمی ہیلی کوپٹرز نے سرچ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دوحہ معاہدے کے اثرات نظر نہیں آ رہے ہیں اور حالیہ ایک سال میں تشدد کی کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
موسم سرما میں وادی ہنزہ اور اس کے بالائی علاقوں میں پانی کی لائنیں مکمل طور پر منجمد ہو جاتی ہیں جس کے باعث مقامی افراد شدید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
نیپالی کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم نے چند روز قبل پاکستان میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے- ٹو کو سرد موسم میں سر کیا تھا۔ ان مہم جوؤں سے پہلے دنیا میں کسی شخص نے یہ ریکارڈ نہیں بنایا تھا۔ نذر الاسلام آپ کو ملوا رہے ہیں ان نیپالی کوہ پیماؤں سے جو یہ کارنامہ انجام دینے میں کامیاب رہے۔
دسمبر کے وسط میں شروع ہونے والے اس پروگرام میں دنیا بھر کے 18 ممالک سے تقریباً 60 کوہ پیما حصہ لے رہے ہیں۔ اگرچہ 10 نیپالی کوہ پیماؤں نے کے-ٹو سر کر لیا ہے تاہم توقع ہے کہ یہ مہم دو ماہ تک جاری رہے گی۔
افغان امور کے ماہر سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طالبان کو جس طرز کی کلین چٹ ٹرمپ انتظامیہ نے دی تھی ویسا اب شاید ممکن نہ ہو۔ ان کے بقول افغانستان میں تشدد کے اضافے کے بعد امریکہ اور عالمی قوتوں کا طالبان پر سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال بہت مخدوش ہے جب کہ میڈیا اداروں کو تنخواہوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مردوں کی تنخواہیں خواتین کی نسبت زیادہ ہیں اور اس کے علاوہ ہراسانی کے کیسز سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
عالمی ریکارڈ بنانے والے کوہ پیماؤں کی قیادت نیپال کے چنگ داوا شرپا کر رہے تھے۔ دیگر کوہ پیماؤں میں نرمل پرجا، جلجی شرپا، مینگما ڈیوڈ شرپا، مینگما جی، سونا شیرپا، مینگما ٹنزی شرپا، پیم چیری شرپا، داوا تمبا شرپا، کیلی پیمبا شرپا، داوا تینجنگ شرپا شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں عرب، اسرائیل تعلقات میں اتنی گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آئی جتنی گزشتہ چار سالوں میں نظر میں آئی۔
پاکستان کے صوبہ خيبر پختونخوا کے علاقے چترال، کوہستان، شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان، پاکستان کے زيرِ انتظام کشمير اور صوبہ بلوچستان ميں مارخور کی کئی اقسام پائی جاتی ہيں۔
لکھوی کی گرفتاری کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ اُنہیں کسی بیرونی دباؤ پر گرفتار کیا گیا یا یہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کے سلسلے کی ہی کڑی ہے جس میں حالیہ عرصے میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
کرک کے ضلعی پولیس افسر عرفان اللہ خان نے جمعرات کو میڈیا کو بتایا کہ گرفتار کیے جانے والوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما بھی شامل ہیں جن میں پارٹی کے ضلعی سربراہ مولانا میر زاقیم خان اور صوبائی رہنما رحمت سلام خٹک بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ یکم دسمبر 2020 تک کم از کم 274 صحافی قید میں تھے جب کہ گزشتہ سال یہ تعداد 250 سے زائد تھی۔
مزید لوڈ کریں