جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران گورنر پنجاب کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزیرِ اعلٰی پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اُنہیں عہدے سے ہٹانے کا نوٹی فکیشن واپس لے لیا گیا ہے۔
پنجاب اسمبلی جا اجلاس اسپیکر سبطین خان کی زیرصدارت رات 12 بجے کے بعد نئے سیشن سے شروع ہوا ور ایجنڈا جاری کیا گیا۔ اس موقع پر اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا تاہم اسپیکر نے اعتماد کا ووٹ دینے کے لیے پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے کا کہا تاکہ ارکان ایوان میں آسکیں۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اعتماد کے ووٹ کے لیے کتنا وقت مناسب ہوسکتا ہے؟ ہم ایک تاریخ مقرر کردیتے ہیں۔اس دوران جسٹس عاصم حفیظ نے وزیرِاعلیٰ کے وکیل سے کہا کہ آپ کے پاس پورا موقع تھا کہ اتنے دن میں اعتماد کا ووٹ لے لیتے۔
پاکستان میں مرغی کے گوشت کی قیمت میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ حکومت اور پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے درمیان جاری تناؤ کہا جاتا ہے۔ اگرتنازع مزید طول پکڑتا ہے تو مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ صوبہ پنجاب کی سیاسی صورتِ حال اسی طرح چلتی رہے گی، پرویز الٰہی ایوان سے اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے اور صوبے کے وزیراعلیٰ رہیں گے۔
محکمہ صحت کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے محکمہ صحت کی ٹیمیں علاقے میں موجود ہیں اور صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق حساس ادارے سی ٹی ڈی کے دونوں افسران خانیوال کے ایک ہوٹل میں موجود تھے۔ جہاں ایک شخص اُن سے ملنے کے لیے آیا اور فائرنگ کر دی۔ ہلاک ہونے والے افسران کی شناخت نوید صادق اور ناصر بٹ کے نام سے ہوئی ہے۔
پی ڈی ایم حکومت نے اپنے آٹھ ماہ ایسے وقت میں مکمل کیے ہیں جب ملک میں ٹیکنو کریٹس حکومت لانے کی قیاس آرائیاں جاری ہیں اور وہیں سابق وزیرِ اعظم عمران خان ملک میں فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پنجاب میں سیاسی صورتِ حال میں فی الوقت کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ بظاہر عدالتی حکم پر اسمبلیوں کو تحلیل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ دوسری جانب اسمبلی کو تحلیل کرنے کی باتیں بدستور جاری ہیں۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں کہ پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔
گورنر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے لکھے گئے خط کے بعد پیدا ہونے والے بحران کے دوران سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
قوانین کے مطابق وزیرِ اعظم یا وزیرِ اعلٰی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد وزیرِ اعلٰی اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا جس کے بعد عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ تاریخ پر پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی حتمی تاریخ دیے جانے کے بعد حکومتی جماعتوں نے صف بندی شروع کر دی ہے۔ ان کا راستہ روکنے کے لیے شہباز شریف،آصف زرداری اور چوہدری شجاعت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
پرویز الہی نے کہا کہ اُن کی رائے میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے ان پر بہت احسانات ہیں، احسان فراموشی نہ کی جائے۔
پنجاب کے سینئر وزیر میاں اسلم اقبال نے منگل کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریکِ انصاف ہفتے کو لاہور کے لبرٹی چوک میں بڑا اجتماع کرے گی جہاں عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔
پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں احمدی جماعت کی عبادت گاہ کو نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر نقصان پہنچایا ہے جس کے نتیجے میں قیامِ پاکستان سے قبل تعمیر کی گئی قدیم عبادت گاہ کے مینار ٹوٹ گئے ہیں جب کہ احمدی جماعت نے پولیس پر اس کارروائی کا الزام عائد کیا ہے۔
احمدی کمیونٹی کی نمائندگی کے لیے ڈاکٹر مرزا سلطان احمد کو مدعو کیا گیا، لیکن تقریب سے چند گھنٹے قبل ان سے معذرت کر لی گئی۔
کسانوں نے الزام عائد کیا ہے کہ روڈا منصوبے کے لیے ان کی زمینیں زبردستی قبضہ کی جا رہی ہیں اور حکام زمین کے حصول کے لیے جو طریقہ کار اختیار کر رہے ہیں وہ صریحاً عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
دنیا کے آلودہ شہروں میں شمار ہونے والے لاہور میں گزشتہ کچھ دنوں سے فضائی آلودگی میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا جس پر لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کو فوری اقدامات کی ہدایت کی تھی۔
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ پرویز الٰہی کے بیانات اپنی جماعت کی اہمیت اور اپنا سیاسی قد مزید بڑھانے کے لیے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ قائداعظم بڑے سیاسی قد کاٹھ کے ساتھ سامنے آئے۔
پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضٰی نے حمزہ شہباز شریف سے منگل کو ملاقات کی ہے جس میں وزیرِ اعلٰی پنجاب سے اعتماد کا ووٹ لینے اور دیگر سیاسی معاملات پر تبادلۂ خیال کیا گیا ہے۔
مزید لوڈ کریں