Sidra Dar is a multimedia journalist based in Karachi, Pakistan.
کراچی کے علی محمد گوٹھ میں اب تک پراسرار بیماری کے نتیجے میں 19 اموات ہو چکی ہیں۔ محکمۂ صحت اور ادارۂ ماحولیات نے اموات کی وجہ جاننے کے لیے حال ہی میں علاقے سے سیمپلز جمع کیے ہیں۔ لیکن اب تک یہ واضح نہیں ہے اموات کی اصل وجہ کیا تھی۔ مزید تفصیل سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی اس رپورٹ میں۔
تھر پارکر کے شہر مٹھی سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر قائم ملنحور وینا میں ایک ایسا بوائز سیکنڈری اسکول ہے جو 1980 کی دہائی سے ایک جھونپڑے سے شروع ہوا تھا اور اب ایک بڑی عمارت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اسکول کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں 100 لڑکیاں بھی زیرِ تعلیم ہیں۔
موسیٰ عاطف پانچویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ انہیں27 جنوری کو کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں قائم نجی اسکول میں اس وقت سزا کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں ان کی ٹیچر نے دوستوں سے اردو زبان میں بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ٹیچر نے ان کے چہرے پر سیاہ دھبہ لگا کر بچوں کو ان کا مذاق اڑانے کا کہا۔
کراچی کے ضلع کیماڑی کی حدود میں مواچھ گوٹھ ایک پسماندہ علاقہ ہے جس کی آبادی لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اس میں مختلف گوٹھ ہیں جن میں علی محمد گوٹھ شامل ہے جو اس وقت خبروں کی زد میں ہے۔
کراچی کے علاقے مواچھ گوٹھ میں مبینہ طور پر زہریلی گیس سے متاثرہ خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ مرنے والے بچوں کی تعداد 19 تک پہنچ چکی ہے۔ 10 بچے اس وقت مختلف اسپتالوں میں داخل ہیں جب کہ 16 بچے بیماری کی حالت میں گھر میں ہیں۔
آج دنیا بھر میں تعلیم کا دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ہم آپ کے لیے سندھ کے علاقے تھرپارکر سے کچھ ایسی بچیوں کی کہانی لائے ہیں جن میں علم کی جستجو تو ہے لیکن اس کا حصول ان کے لیے آسان نہیں۔ سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ۔
پاکستان میں رات گئے ملک بھر میں بجلی کی بحالی کا کام شروع ہوا لیکن کراچی کے بہت سے علاقے ایسے بھی تھے جو رات 12 بجے بھی تاریکی میں ڈوبے نظر آئے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ہندوؤں کی بھیل برادری سے تعلق رکھنے والی دیا بھیل کو بے دردی سے قتل کیے جانے کی خبر پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں موضوعِ بحث ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ کرن جعفر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ لیکن 'ب' فارم ان کے خوابوں کی تعبیر کی راہ میں رکاوٹ بن کر حائل ہے۔ پاکستان میں ایسے کتنے ہی بچے ہیں جو صرف شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔ کراچی سے سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ۔
ہم اب گوٹھ کوٹھی کلہوڑو میں داخل ہوچکے تھے گاڑی سے اترتے وقت میرے کانوں میں جو پہلی آواز پڑی وہ اسکول میں پڑھائے جانے والے سبق کی تھی جسے بچے با آواز بلند ایک ساتھ دہرا رہے تھے۔ مجھے اپنے اسکول کا وقت یاد آگیا۔ تقریباً 50 قدم کے فاصلے پر یہ اسکول تھا جس میں داخل ہوتے ہی مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔
فیفا ورلڈ کپ کے شائقین فائنل میں ارجنٹائن اور فرانس کے اچھے کھیل کی امید کیے ہوئے ہیں۔ کراچی کے صدیق بلوچ گوٹھ میں بھی کچھ مداح ارجنٹائن کی فتح چاہتے ہیں جب کہ بعض شائقین کو فرانس سے کامیابی کی امید ہے۔ مزید جانیے سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ میں۔
کلاس روم میں بلیک بورڈ موجود تھا لیکن بیٹھنے کو فرنیچر نہیں تھا۔ نئی چمکتی ٹائلوں سے بنے تین کلاس روم پر مشتمل یہ ضلع لاڑکانہ کا گوٹھ شیر محمد بروہی کا پرائمری اسکول تھا۔
سماجی تنظیموں کے مطابق امدادی کام اب سست روی کا شکار ہے کیوں کہ غیر ملکی امداد آنے کے بعد لوگ اب سیلاب کو کسی حد تک بھول چکے ہیں۔ تو اب اس طرح سے مقامی امداد نہیں مل رہی جیسے پہلے مل رہی تھی۔
عالمی ادارہ صحت کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تین کروڑ 84 لاکھ افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جن میں 17 لاکھ تعداد بچوں کی ہے۔
پولیس کے مطابق رات بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر تھانہ کلفٹن کی حدود میں ڈی ایچ اے فیز فائیو، اسٹریٹ ای کے پاس مشکوک کار کو پولیس نے روکنے کی کوشش کی جس کے بعد ملز م اور پولیس اہلکار کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی میں ملزم نے پولیس اہلکار پر گولی چلادی اور کار لے کر فرار ہو گیا۔
کراچی کے نسلہ ٹاور کو منہدم کیے جانے کے واقعے کو ایک برس بیت گیا ہے۔ یہ ایک برس متاثرہ رہائشیوں کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں تھا۔ وہ آج بھی وہاں گزرے لمحات کو یاد کرتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی شکوہ ہے کہ چیف جسٹس کے احکامات کے باوجود تاحال اُنہیں معاوضہ نہیں ملا۔سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ۔۔۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 46 کروڑ سے زائد افراد ذیابیطس کا شکار ہیں جن میں سے 90 فی صد ٹائپ ٹو سے متاثر ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا بھر میں ذیابیطس سے متاثرہ ممالک میں تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔
چادر اور چار دیواری کے تحفظ کا احساس اب بری طرح سے سیلاب سے متاثرہ خواتین کو ستا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ تباہ شدہ علاقوں میں جہاں اب پہلے جیسا کچھ بھی نہیں، یہ خواتین اس سب کے باوجود وہاں صرف اس لیے لوٹنا چاہتی ہیں کہ وہ اپنے قبیلے اور برادری کے درمیان رہ کر خود کو کسی حد تک محفوظ تصور کرسکیں۔
حمیدہ بانو نے اپنی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں انہوں نے ایک ایک ایسے شخص سے شادی کی جس کی بیوی مر چکی تھی اور ان کے بچے بے سہارا تھے۔ ان بچوں کو سنبھالنے کی ذمے داری حمیدہ نے لی۔
کریمہ کا تعلق سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل جوہی سے ہے جو سیلاب کے بعد خیمہ بستی میں پناہ لیے ہوئے تھیں جو اب واپس اپنے علاقے جا رہی ہیں۔ کریمہ کہتی ہیں گھر جا کر زندگی کا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے ٹوٹا تھا۔
مزید لوڈ کریں