Sidra Dar is a multimedia journalist based in Karachi, Pakistan.
"مجھے دھوکے سے دبئی بول کر پاکستان میں اتار دیا۔ میں نے یہاں 20 برس گزار دیے نہ بہن بھائی ہیں نہ بچے صرف اللہ کا سہارا ہے۔" یہ الفاظ حمیدہ بانو کے ہیں جنہیں بھارت سے اسمگل کر کے پاکستان لایا گیا تھا۔ کراچی کے ولی اللہ ایسی خواتین کو ان کے پیاروں سے ملاتے ہیں۔ سدرہ ڈار کی رپورٹ
مجھے ذہنی طور پر تیار کردیا گیا تھا کہ مجھے اس دکھی ماں سے شاید ہی کوئی جواب مل سکے۔ میں نے جب ان خواتین کو بتایا کہ میں ان کے درمیان بیٹھنا چاہتی ہوں تو یہاں بھی ان لٹے پٹے خاندانوں نے اپنی مہمان نوازی برقرار رکھتے ہوئے ایک مثال قائم کر ڈالی۔
سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ایسے میں امدادی ادارے میڈیکل کیمپ لگا کر ان سیلاب متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔ البتہ ادویات کی کمی کا سامنا ہے۔
خادم حسین ملاح کا خاندان منچھر جھیل میں کشتیوں پر آباد تھا۔ جھیل میں پانی خطرے کے نشان سے بلند ہوا تو ان کا پورا قبیلہ جھیل چھوڑ کر خشکی پر آبسا۔ خادم حسین ملاح نے سیلاب میں کمائی کا متبادل ذریعہ بھی تلاش کر لیا ہے، مگر انہیں ڈر ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے ان کا مستقل روزگار خطرے میں پڑسکتا ہے۔
سیلاب آیا تو بدین کے منور علی اپنا گھر بار نہ بچا سکے۔ البتہ انہیں یہ اطمینان تھا کہ وہ اور ان کے گھر والے اپنی جانیں بچانے میں کامیاب رہے۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ موت اب بھی ان کے تعاقب میں ہے۔
صبح چھ بجے ہمارا سفر کراچی سے ضلع دادو کی جانب تھا۔ ناشتہ ہم نے اپنے مقررہ مقام جامشورو پر کیا اور ناشتے کے وقت یہ سوچ تھی کہ جو کھا رہے ہیں شاید ہی اس کے بعد کچھ مل سکے۔ دادو کی طرف جاتے ہوئے گزر سہون کی جانب سے تھا۔
اس کی پیدائش کے وقت بھی تیز بارش ہو رہی تھی، بارش کی وجہ سے ہم اسپتال نہیں جا سکے اور ہمارے پاس بچی کے لیے کپڑے بھی نہیں تھے۔" یہ کہانی سندھ کی ریشماں بی بی کے ہیں جنہوں نے شدید مشکل حالات میں بیٹی کو جنم دیا۔ ان کے لیے زچگی کا مرحلہ کتنا کٹھن تھا؟ جانیے سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی اس رپورٹ میں
پاکستان کے صوبے سندھ کا علاقہ سجاول بھی بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوا ہے اور سندھ میں ایک اور سیلابی ریلا آنے کے خدشات بھی موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سجاول میں ایک کاشت کار اپنی زمین سے پانی نکال کر چاولوں کی فصل کاشت کر رہے ہیں۔ اس کاشت کار سے ملا رہے ہیں سدرہ ڈار اور خلیل احمد۔
دیکھیے ان حاملہ خواتین کی کہانی جو انتہائی نامساعد حالات میں اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
سندھ کی منچھر جھیل میں پانی کی سطح بلند ہونے سے مختلف مقامات پر حفاظتی بند ٹوٹنے کا اندیشہ ہے۔ ایسے میں جھیل کے اطراف کی آبادیوں کے مکین محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ حکام کے مطابق جھیل میں باغ یوسف کے قریب شگاف ڈالا گیا ہے تاکہ پانی کا دباؤ کم کیا جائے۔ سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ۔
اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اس وقت ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین موجود ہیں، جن میں سے 73 ہزار خواتین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ آئندہ ماہ زچگی کے مرحلے سے گزریں گی۔
شاہراہ پر موجود تقریباً تمام بڑے ہوٹل یا تو بند تھے یاجو کھلے ہوئے تھے ان میں کھانے کو کچھ میسر نہیں تھا۔ صبح سے نکلے دوپہر بارہ بجے ہمیں ایک ہوٹل سے چائے ملی جو ہم نے سفر کے دوران رکھے بسکٹس کے ساتھ جلدی جلدی حلق میں انڈیلی۔
حالیہ بارشوں میں خواتین اور بچوں کی محفوظ جگہ پر منتقلی کے دوران پڈعیدن کے ایک نواحی گاؤں کے بچے کی جان چلی گئی تھی۔ گاؤں کے مکین اپنے گھروں کی تباہی پر پریشان تو ہیں لیکن بچے کی موت کا غم اس سے بھی زیادہ گہرا ہے۔ تفصیلات سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ میں۔
''سرکار کچھ نہیں کرے گی، ہمیں بس اللہ کا آسرا ہے،'' نم آنکھوں کے ساتھ ادا ہونے والے یہ الفاظ سیلاب متاثرہ خاتون حمیدہ کے ہیں جو اس وقت سندھ کے علاقے پڈعیدن کے ایک سرکاری اسکول میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ حمیدہ اور ان جیسے کئی افراد سیلاب میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ہیں۔ سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ۔
حیدر آباد سے گزرتے ہوئے جو مناظر دکھائی دیے وہ بتارہے تھے کہ حالیہ بارشوں کے بعد سے اگر سندھ کا دوسرا بڑا شہر ایسے متاثر ہے تو آگے کے علاقے کتنے مسائل میں گھرے ہوں گے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں وقفے وقفے سے کہیں ہلکی تو کہیں تیز بارش جاری ہے۔ مسلسل بارش کے سبب شاہراہیں اور سڑکوں کی حالت خراب ہو چکی ہے جب کہ ندی نالوں میں طغیانی کے سبب حادثات ہو رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی سیریز 'آزادی کے 75 سال' کی اس ویڈیو میں آپ سندھ کے بعض ایسے ہندو خاندانوں کی کہانی جانیں گے جو 1947 کے بعد بھی پاکستان میں ہی رہے۔ سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ۔
کسی کو نوادرات جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے تو کسی کو ڈاک کے پرانے ٹکٹ۔ لیکن کیا آپ نے سنا ہے کہ کوئی ملی نغموں کا متوالا ہو؟ کراچی کے نوجوان ابصار احمد پاکستان کی تاریخ میں بننے والے اب تک کہ تمام ملی نغموں کا ریکارڈ نہ صرف زبانی جانتے ہیں بلکہ ان کے پاس یہ تمام ملی نغمے موجود بھی ہیں۔
مون سون کی بارش کا سلسلہ اس وقت پورے ملک میں جاری ہے۔ محکمۂ موسمیات نے ان بارشوں سے قبل ہی وارننگ جاری کی تھی جس میں واضح کیا تھا کہ سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی کے نشیبی علاقے زیرِ آب آنے اور اربن فلڈ کا خدشہ ہے۔
کراچی میں مون سون بارش کے بعد لوگوں کے گھروں میں پانی بھرنا اور گلی محلوں کا تالاب بن جانا معمول کی بات ہے۔بارشوں میں جان لیوا حادثات بھی پیش آتے ہیں۔ کراچی میں بارش رحمت کے بجائے ہمیشہ زحمت کیوں بنتی ہے اور شہری ہر سال مون سون میں کن مسائل کا سامنے کرتے ہیں؟ دیکھیے سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ۔
مزید لوڈ کریں