رسائی کے لنکس

بیماری یا زہریلی گیس: کراچی کے علی محمد گوٹھ میں اموات کی وجوہات سامنے نہ آ سکیں


علاقے میں کچھ فیکٹریاں سیل کر دی گئی ہیں
علاقے میں کچھ فیکٹریاں سیل کر دی گئی ہیں

’’میرا چار سال کا بیٹا ابھی اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ پہلے اس کی حالت بہت خراب تھی اب کچھ بہتر ہے۔ ہمارے خاندان کے تین بچے سانس لینے میں مشکلات کے سبب چل بسے۔ ان ہی بچوں کے ساتھ میرا بیٹا بھی بیمار ہوا تھا۔ یہ سب یہاں فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں کی وجہ سے ہوا ہے۔‘‘

یہ کہنا ہے 30 سالہ عبداللہ کا، جو پیشے کے اعتبار سے مزدور اور مواچھ کے علاقے میں علی محمد گوٹھ کے مکین ہیں۔

کراچی کے ضلع کیماڑی کی حدود میں مواچھ گوٹھ ایک پسماندہ علاقہ ہے جس کی آبادی لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اس میں مختلف دیہات ہیں جن میں علی محمد گوٹھ شامل ہے جو اس وقت خبروں کی زد میں ہے۔

اس علاقے میں رواں ماہ 10 جنوری سے 25 جنوری کے دوران محکمۂ صحت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 18 اموات ہوئی ہیں جب کہ علاقہ مکینوں کا دعویٰ ہے کہ اموات کی تعداد 19 ہے۔

مرنے والوں میں دو سالہ بچے سے 20 سال کے جوان تک شامل ہیں، البتہ بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔

ابتدائی طور پر سمجھا گیا کہ اس علاقے میں خسرہ کی وبا پھوٹنے سے بچے بیمار ہوئے۔ بچوں کے جسم پر دانے، گلے میں سوزش، تیز بخار کی علامات سامنے آئیں جس کے بعد انہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔ بعد ازاں ایک کے بعد ایک اموات سامنے آنے لگیں جس سے علاقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ حمیرا بچل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس علاقے میں قائم بہت سی فیکٹریاں مضر صحت دھواں اور گیسز کے اخراج کا سبب بنی ہوئی ہیں۔

واقعے کے بعد کیا ہوا؟

جس علاقے میں 15 اموات ہوئی ہیں اس کی آبادی ایک ہزار سے بھی کم ہے۔صوبائی حکومت حرکت میں آئی، وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے نوٹس لیتے ہی محکمۂ صحت کی ٹیمیں علاقے میں آباد لوگوں سے بات کرنے پہنچیں اور ان کے خون کے نمونے بھی حاصل کیے۔

لیبر ڈپارٹمنٹ سے ان علاقوں میں قائم فیکٹریوں کے حوالے سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سندھ نے یہ سوال کیا کہ یہ کون سی فیکٹریاں ہیں، جن کا دھواں اتنا زہریلا ہے کہ انسانی جانوں کے لیے نقصان کا سبب بن رہا ہے، کیا کبھی ان فیکٹریوں کا معائنہ بھی کیا گیا یا نہیں؟

صوبائی حکومت کے نوٹس اور معاملے کی تحقیقات کے بعد اس علاقے میں محکمۂ صحت کے علاوہ ادارۂ ماحولیات کی ٹیموں نے بھی دورۂ کیا۔

رواں ماہ 26 سے 28 جنوری کے دوران ان ٹیموں نے اس علاقے سے نمونے اکھٹے کیے جن میں پانی کے نمونے بھی شامل تھے جس کے بعد ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی گئی۔

علی محمد گوٹھ واقعے پر تفصیلی رپورٹ میں کیا ہے؟

محکمۂ صحت کے مطابق یہاں بسنے والے رہائشیوں کے خون اور بلغم کے نمونے حاصل کیے گئے۔ اس کے علاوہ کرونا کے ٹیسٹ بھی کیے گئے۔ سینے میں درد اور سانس لینے میں دشواری کی عام شکایات کے سبب بہت سے افراد کے ایکسرے بھی کیے گئے۔

محکمۂ صحت کی جانب سے اب تک جو نتائج اخذ کیے گئے ان کے مطابق اس علاقے میں مجموعی متاثرین جن کی تعداد 49 بتائی جارہی ہے۔ ان میں سے 15 افراد کی ہلاکت ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق 26 متاثرین اس علاقے کے چھ گھروں میں رہائش پذیر تھے۔ جو ان فیکٹریوں کے بہت نزدیک ہیں۔ ان متاثرین کی عمر 11 برس سے 40 برس کے درمیان ہے اور ان تمام افراد کو کبھی بھی حفاظتی ٹیکے نہیں لگے۔

رپورٹ کے مطابق اس علاقے میں خسرہ کے لیے بچوں کے خون کے نمونے محکمۂ صحت اور ادارہ ماحولیات کی جانچ کے لیے نجی لیب بھیجے گئے ہیں۔

ہلاک ہونے والے بچوں کی عمریں د و سے چار برس کی ہیں جن میں بخار، کھانسی، سانس لینے میں رکاوٹ اور سینے میں درد کی علامات ظاہر ہوئی تھیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کچھ بچوں میں نمونیہ کی علامات بھی ظاہر ہوئیں جس میں انہیں آنکھوں میں جلن، منہ خشک ہونا، سر درد، متلی، بخار اور آنکھوں میں سوزش جیسی شکایات تھیں۔

رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ جب محکمۂ صحت اور ادارۂ موحولیات کی ٹیمیں علاقے کے دورے پر تھیں تو انہیں اس جگہ مخصوص بدبو محسوس ہوئی۔ یہ بو انتہائی شدید تھی کیوں کہ آس پاس پلاسٹک، ربڑ، پتھر اور تیل کی فیکٹریاں موجود ہیں جہاں سے یہ بو آرہی تھی۔

ہلاک ہونے والے افراد کے گھر ان فیکٹریوں کے نزدیک ہی ہیں۔ لوگوں سے بات کرنے کے دوران یہ معلومات سامنے آئیں کہ اسی قسم کی شدید بو انہیں 5 جنوری سے محسوس ہونے لگی جس کے بعد 10 جنوری سے 25 جنوری کے دوران علاقے میں اموات ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنر نے اس علاقے کا دورۂ کر کے 26 جنوری تک 12 کے قریب فیکٹریوں کو سیل کیا جس کے بعد سے اب اس علاقے میں بد بو محسوس نہیں ہو رہی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے بعد جو اب تک دو نتائج اخذ کیے گئے ہیں، ان کے مطابق یہ ہلاکتیں خسرہ اور اس کی پیچیدگیوں کے سبب ہوئیں جب کہ اس کی دوسری وجہ فیکٹریوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں اور گیسز ہیں جب کہ محکمۂ صحت سندھ نے خسرہ کی وبا اور علاقے میں زہریلی گیس کی موجودگی کے شک پر حاصل کیے گئے نمونوں کو جانچ کے لیے بھیج دیا ہے جس کے بعدحتمی رپورٹ پیش کی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG