Sidra Dar is a multimedia journalist based in Karachi, Pakistan.
بقر عید آتے ہی کراچی میں ان ریستورانوں پر لوگوں کا تانتا بندھ جاتا ہے جہاں "گوشت آپ کا ذائقہ ہمارا" کا بینر لگا ہوتا ہے۔ دوستوں کی دعوت ہو یا گھر میں باربی کیو کا اہتمام، اکثر لوگ قربانی کا گوشت مسالے لگوانے یا چٹ پٹے پکوان بنوانے کے لیے ان ہی ریستورانوں پر لے جاتے ہیں۔ دیکھیے سدرہ ڈار کی رپورٹ۔
گلگت بلتستان کی گلشن زرین اپنی یونیورسٹی کی آن لائن کلاسز کے لیے روز کئی کلومیٹر پیدل سفر کرتی ہیں۔ پرخطر راستوں سے گزرتے ہوئے وہ ایک ویران جگہ پہنچتی ہیں جہاں کبھی انہیں انٹرنیٹ ملتا ہے اور اگر موسم خراب ہو تو خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔ آن لائن کلاسز سے طلبہ کو درپیش مشکلات کی سیریز کا پانچواں حصہ
سن 1969 میں 'دارالسکون' کی بنیاد رکھنے والی سسٹر رتھ لیوس کی آج آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد انہیں کراچی کے گورا قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
پاکستان کے لیے دو ہجرتیں کرنے والی بہاری کمیونٹی کی اکثریت کراچی میں آباد ہے۔ 1971 کے بعد مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان آکر بسنے والے ہزاروں بہاری خاندانوں کے پاس اب بھی شناختی کارڈ نہیں جس کے سبب انہیں آج بھی پناہ گزین سمجھا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر دیکھیے سدرہ ڈار کی رپورٹ۔
کراچی میں ایک طرف دوبارہ سخت لاک ڈاؤن کی افواہیں گردش کر رہی ہیں تو دوسری طرف بازاروں میں شہریوں کا رش کم نہیں ہو رہا۔ کرونا وائرس کے تیزی سے بڑھتے کیسز کے باوجود بیشتر بازاروں میں ایس او پیز کی پابندی نہیں کی جا رہی۔ کیسز بڑھنے کے باوجود کچھ شہری اب بھی کرونا کو حقیقت نہیں سمجھ رہے۔
کرونا وائرس کی وبا کسی تفریق کے بغیر سب کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔ اب یہ صورتِ حال ہے کہ اسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ ختم ہو رہی ہے۔ اسپتال کرونا کے بڑھتے مریضوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں جب کہ معالجین کی جانیں بھی وائرس کی نذر ہو رہی ہیں۔
یہ وقاص کا آبائی گھر ہے۔ یہی وہ پیدا ہوئے، بڑے ہوئے، شادی ہوئی اور آج آخری سفر بھی یہی سے ہوا۔ پی آئی اے کی پرواز 8303 سے آنے والے وقاص اکیلے نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ ندا، دس سالہ بیٹی آئمہ، سات سالہ بیٹا عالیان بھی شریک سفر تھے۔
اس جہاز میں سوار بہت سے افراد کے اہل خانہ کا یہی کہنا تھا کہ ان کے پیارے اس عید پر اپنے گھر سرپرائز دینے آرہے تھے۔ کیوں کہ کرونا کے باعث فلائٹ آپریشن کئی ہفتوں بعد بحال ہوا تھا۔
کہاں کے سماجی فاصلے، کہاں کے ماسک اور دوسری حفاظتی پابندیاں؟ ہم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم اپنی خو نہ چھوڑیں گے اور عید کی تیاریاں اسی طرح کریں گے جیسے ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔
کراچی پولیس کے مطابق واقعے کی تفتیش ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔ البتہ لواحقین کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ واقعہ بچوں کی غفلت کا شاخسانہ لگتا ہے۔
میرے والد کی عمر 82 سال تھی۔ جب ہم انہیں اسپتال لے کر گئے تو ان کی حالت قدرے بہتر تھی۔ وہ ہوش و حواس میں تھے۔ کرونا کے آئی سی یو میں جانے کے لیے وہ خود بستر سے اٹھ کر وہیل چیئر پر گئے اور ہمیں کچھ ضروری ہدایات بھی دیں۔ اس کے بعد میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا۔
وہ دکان دار جو رمضان کا سارا سال انتظار کرتے تھے کہ اس ماہ وہ کوئی اسٹال لگائیں یا کوئی بھی مال بیچیں گے تو خوب منافع ہو گا۔ وہ اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے۔ نہ جانے ان کا گزارہ کیسے ہو رہا ہو گا؟
کرونا وائرس کے ماحول میں صحافی بھی فرنٹ لائن ورکرز کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں متعدد صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ عالمی وبا کے دوران صحافی کن حالات میں کام کر رہے ہیں اور انہیں کیا مشکلات درپیش ہیں؟ جانتے ہیں سدرہ ڈار کی ڈیجیٹل رپورٹ میں۔
مبصرین کے مطابق کئی میڈیا ہاؤسز کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تین سے چار ماہ کی تاخیر ہو رہی ہے جس سے صحافی اور دیگر اسٹاف ذہنی کرب میں مبتلا ہیں۔ یوں اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک برس صحافیوں کے لیے سب سے مشکل برس رہا تو بے جا نہ ہوگا۔
کراچی میں رواں برس رمضان کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ کرونا وائرس کے باعث شہر میں لاک ڈاؤن ہے اور صوبائی حکومت کی جانب سے کاروبار بند رکھنے کی بھی ہدایت۔ جس کی وجہ سے سڑک کنارے افطار کا اہتمام دکھائی نہیں دے رہا۔ ان اقدامات پر شہری کیا کہتے ہیں؟ دیکھیے سدرہ ڈار کی اس ڈیجیٹل رپورٹ میں۔
کرونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن کے باعث پاکستان میں اِن دنوں کئی افراد دفتر کا کام گھروں سےکر رہے ہیں۔ بیشتر پاکستانیوں کے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہے۔ وائس آف امریکہ نے 'ورک فرام ہوم' کرنے والے بعض ایسے ہی افراد سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کا یہ تجربہ کیسا رہا اور اُنہیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بھوک اور غربت کا ہے۔ اور اسی وجہ سے گھروں میں لڑائی جھگڑے بڑھ رہے ہیں۔
فیصل ایدھی میں کرونا وائرس کی تصدیق کے بعد سے ان کی والدہ بلقیس ایدھی بیٹے کی صحت سے متعلق خاصی فکر مند ہیں۔ وبا کے ان دنوں میں ایدھی خاندان اور ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار کس طرح کام کر رہے ہیں؟ ہماری نمائندہ سدرہ ڈار نے اس بارے میں بلقیس ایدھی سے بات چیت کی ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث لاک ڈاؤن کئی افراد کے روزگار کی بندش کا سبب بن گیا ہے۔ ایسے میں بہت سی فلاحی تنظیمیں متاثرین کو راشن فراہم کر رہی ہیں۔ لیکن کراچی کی ایک فیملی نے اس سے بھی زیادہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ یہ خاندان کیسے اُن لوگوں کی مدد کر رہا ہے؟ دیکھیے سدرہ ڈار کی اس رپورٹ میں
قانون نافذ کرنے والے اداروں کا روزانہ ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایسی صورت حال میں وہ یہ بہتر طور پر پرکھ سکتے ہیں کہ کون مجبوری میں نکلا ہے اور کون شوقیہ۔ ان سب کو ایک ہی طرح سے ڈیل کرنا کچھ مناسب نہیں۔
مزید لوڈ کریں