موجودہ دور میں خوب صورت اور عالی شان محل صرف قصے کہانیوں میں ملتے ہیں۔ ماضی کے چند محل اگر موجود ہیں بھی تو ان کی حالت خستہ ہے۔ لیکن پنجاب کی تاریخی عمارتوں میں ایک محل ایسا بھی ہے جس کا بیش تر حصہ اب بھی بالکل اصل حالت میں ہے۔ عمر حیات محل کی کہانی دیکھیے ثمن خان کی رپورٹ میں۔
لاہور کے شاہی قلعے کی شان و شوکت سے تو سبھی واقف ہیں لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ مُغل بادشاہ جہانگیر نے شیخوپورہ میں بھی ایک قلعہ بنوایا تھا۔ یہ قلعہ آج بھی موجود تو ہے لیکن خستہ حالی کے باعث اس کے دروازے عوام کے لیے بند ہیں۔ اس قلعے کی حالتِ زار پر دیکھیے ثمن خان کی ڈیجیٹل رپورٹ۔
سارنگی موسیقی کی دنیا کا ایک قدیم ساز ہے جو آج کل کم کم ہی سنائی دیتا ہے۔ سارنگی بجانے والے بھی اب چند ایک ہی باقی رہ گئے ہیں۔ ثمن خان ملا رہی ہیں لاہور کے ایک ایسے سارنگی نواز سے جنہیں یہ فن وراثت میں ملا اور اب وہ اسے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی لوگوں تک منتقل کر رہے ہیں۔
ملیے لاہور کے عثمان غنی سے جو پانچ برسوں میں 300 سے زائد غیر ملکی سیاحوں کی مہمان نوازی کر چکے ہیں۔ عثمان کسی سیاح کی سیر اور رہائش کا انتظام کرا دیتے ہیں تو کسی کو اپنے پیسوں سے کھانا کھلانے لے جاتے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور ان کا 'مشن پازیٹو پاکستان' کیا ہے؟ جانیے ثمن خان کی رپورٹ میں۔
سیر و تفریح کے لیے لاہور کے شاہی قلعے میں آنے والے اکثر لوگ نہیں جانتے کہ یہاں 20 ہزار سے زائد کتابوں پر مشتمل ایک تاریخی لائبریری بھی ہے۔ لائبریری کے دروازے تو سب کے لیے کھلے ہیں لیکن زیادہ تر مؤرخ اور محققین ہی یہاں استفادہ کرنے آتے ہیں۔ اس لائبریری کی کہانی دیکھیے ثمن خان کی رپورٹ میں۔
سیالکوٹ کے صنعت کاروں کے مطابق شہر کی ترقی کا راز ان کی یک جہتی میں پوشیدہ ہے۔ اسی یک جہتی سے وہ اپنی خامیاں بھی دور کرتے ہیں۔
چلنا ہے تو سیالکوٹ چلیے جہاں سڑکیں، ڈرائی پورٹ، ایئرپورٹ اور ایئرلائن جیسے بڑے منصوبے مقامی صنعت کاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنائے ہیں۔ اسپورٹس، سرجیکل، لیدر اور دیگر انڈسٹریز سے تعلق رکھنے والے صنعت کار کاروباری مسابقت کے باوجود سماجی منصوبوں کے لیے کیسے اکٹھے ہوتے ہیں؟ جانیے ثمن خان کی رپورٹ میں۔
کرونا وائرس کی عالمی وبا نے پاکستان میں کروڑوں بچوں کی تعلیم کو متاثر کیا ہے۔ ان میں سے کئی بچے مستقل طور پر اسکول چھوڑ کر مزدوری پر مجبور ہیں۔ یہ بچے شاید اب دوبارہ کبھی اسکول نہیں جا سکیں گے۔ دیکھیے لاہور کی ایک طالبہ فاطمہ نور کی کہانی جس کے خواب کرونا وائرس کی نذر ہو رہے ہیں۔ ثمن خان کی رپورٹ۔
مٹی کا گھڑا آج پانی بھرنے کے لیے بھی کم کم ہی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن کسی زمانے میں یہ گھڑا بولتا بھی تھا اور اس سے نکلنے والی موسیقی سماں باندھ دیتی تھی۔ اندرون لاہور میں آج بھی ایک ایسا فن کار ہے جس کی انگلیاں گھڑے پر پڑتے ہی وہ مٹکا سُر بکھیرنے لگتا ہے۔ دیکھیے لاہور سے ثمن خان کی ڈیجیٹل رپورٹ۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کی رُکن ڈاکٹر سیمی بخاری کے مطابق حکومت خصوصی افراد کی ضروریات سے بخوبی واقف ہے۔ اسی لیے خصوصی افراد کی بحالی کے لیے اہم اقدامات کرنے جا رہی ہے۔
لاہور میں کئی سماجی کارکن اور رضا کار جھونپڑیوں اور کچی بستیوں میں رہنے والے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں۔ کرونا کی وبا سے قبل وہ بہت سے بچوں کو پڑھائی کی طرف لا چکے تھے لیکن عالمی وبا نے ان کی تمام تر محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔ تفصیلات ثمن خان کی اس رپورٹ میں
کیا آپ جانتے ہیں کہ درختوں کا طبی معائنہ بھی کیا جاتا ہے اور علاج بھی۔ درختوں کی صحت جانچنے کے لیے ہارٹی کلچرسٹ یعنی ماہرِ باغ بانی کو خاصی مہارت چاہیے ہوتی ہے۔ نئے اور قدیم درختوں کی نگہداشت کے نظام کو سمجھنے کے لیے ثمن خان کے ساتھ باغِ جناح لاہور چلتے ہیں جہاں ایک صدی پُرانے درخت آج بھی موجود ہیں۔
پاکستان میں خواجہ سراؤں کو ناچ، گانے اور مانگنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی برادری سے تعلق رکھنے والی سونیا ناز نے اس امید کے ساتھ اپنا کاروبار شروع کیا ہے کہ اُنہیں کام کرنے کی نصیحت کرنے والے اُن کی حوصلہ افزائی ضرور کریں گے۔ اُن کی اس کوشش پر لوگوں کا ردِ عمل کیا ہے؟ دیکھیے اس رپورٹ میں
محمد اقبال کو ڈکیتی کے دوران قتل کے الزام میں اُس وقت سزائے موت سنائی گئی جب وہ صرف 16 سال کے تھے۔ لیکن قانون کے باوجود اُن کی رہائی میں تاخیر ہوئی۔
موٹر گلائیڈنگ پاکستان میں متعارف ہونے والا نسبتاً نیا کھیل ہے۔ ایڈونچر کے شوقین اس کھیل کا لطف اٹھانے کے لیے چولستان جیسے دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں لیکن وہاں کے مقامی رہائشیوں کے لیے موٹر گلائیڈنگ ایک خواب ہے۔ پاکستان میں موٹر گلائیڈنگ کن علاقوں میں اور کیسے ہو رہی ہے؟ دیکھیے ثمن خان کی رپورٹ میں
لاہور میں گھوڑے شاہ نامی دربار پر لوگ کسی زمانے میں سونے چاندی کے گھوڑوں کے چڑھاوے دیتے تھے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ مٹی سے بنے گھوڑوں نے ان کی جگہ لے لی جنہیں گھگھو گھوڑے کہا جاتا تھا۔ اب گھگھو گھوڑے ملتے ہیں نہ انہیں بنانے والے فن کار۔ دیکھیے 'متروک پیشوں' پر وی او اے کی سیریز کا نواں حصہ
ہنسی مذاق کرنے والے کو پنجابی معاشرے میں اکثر بھانڈ کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ نئی نسل نے یہ اصطلاح تو سنی ہو گی لیکن بھانڈوں سے واسطہ شاید ہی پڑا ہو گا۔ جگت بازی، چرب زبانی اور طنز و مزاح کے لیے مشہور بھانڈوں کا روزگار بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دیکھیے 'متروک پیشوں' پر وائس آف امریکہ کی سیریز کا تیسرا حصہ
مزید لوڈ کریں