قبائلی علاقے فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے باعث فاٹا کی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخاب نہیں ہو گا۔ اس طرح تقریباً 50 برس کے بعد فاٹا کے لیے سینیٹ میں مختص نشستیں ختم ہوجائیں گی۔ سینیٹ کی خالی ہونے والی بقیہ 48 نشستوں پر الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
نو مارچ کی صبح قومی اسمبلی پہنچا تو ایوان صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ اسٹیشن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ اسپیکر کی کرسی پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس براجمان تھے جنہیں صدارتی انتخاب کے لیے پریزائیڈنگ افسر تعینات کیا گیا تھا۔
سیاست سے دور آصف زرداری کی زندگی میں ہنڈریڈ ڈگری ٹرن اس وقت آیا جب ان کی منگنی سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بینظیر بھٹو سے ہوئی۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) جس نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کر رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ فیصلہ قانون کے مطابق کیا گیا ہے۔
حکمران اتحاد کو بڑے فیصلے کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت چاہیے۔ 336 اراکین کے ایوان میں حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت کے لیے درکار 224 اراکین کا تعداد چاہیے۔ اس وقت حکمران اتحاد میں 8 پارٹیاں شامل ہیں، جن کے قومی اسمبلی میں مجموعی طور اراکین کی تعداد 230 تک پہنچ گئی ہے۔
ایم کیو ایم اور سنی اتحاد کے اراکین ایک دوسرے کی جانب بڑھے لیکن دونوں اطراف کے سینئر ارکان نے بیچ بچاؤ کرایا اور اراکین کو دست و گریباں ہونے سے روک دیا۔
قومی اسمبلی کے پچھلے دو اجلاسوں سے تیسرے اجلاس میں یہ بھی مختلف تھا کہ اس اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین بھی حکمتِ عملی بنا کر اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
شہباز شریف نے 15ویں قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے چند روز قبل اسمبلی تحلیل کردی تھی جس کا مقصد 60 روز کے بجائے دنوں میں انتخابات منعقد کرانا تھا۔
پہلے دن کی طرح دوسرے دن کے اجلاس میں بھی شیر افضل مروت اور کچھ اور اراکین عمران خان کے چہرے والے ماسک پہن کر ایوان کے اندر گھومتے رہے۔
نواز شریف کے ایوان میں داخل ہونے پر مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے ’دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے عمران خان کے خلاف بھی نعرے لگائے جب کہ تحریکِ انصاف کے اراکین نواز شریف کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔
پنجاب اور سندھ میں حکومت سازی اور وزیرِ اعلیٰ کے عہدوں پر اُمیدواروں کی نامزدگیوں پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کو الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 41 کی شق 4 میں کہا گیا ہے کہ صدارت کے لیے انتخاب اس عہدے پر فائز صدر کی مدت ختم ہونے کے زیادہ سے زیادہ 60 دن اور کم سے کم 30 دن قبل کرایا جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے پنجاب اور سندھ اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر اراکین کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے لیکن پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ کامیاب اُمیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے باوجود مخصوص نشستیں نہیں مل سکیں۔
مذہبی جماعتوں کو عرصہ دراز سے کور کرنے والے سینئر صحافی سبوخ سید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کیا کہ میرے خیال میں مولانا فضل الرحمان نے ابتدا میں جارحانہ انداز اس لیے اختیار کیا تھا تاکہ ان کی کچھ سیٹوں میں اضافہ ہو سکے کیوں کہ اس وقت ان کے بیٹے سمیت کچھ نشستوں کے نتائج آنا باقی تھے ۔
شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان طے پایا ہے کہ صوبۂ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گورنر کا عہدہ پیپلز پارٹی جب کہ سندھ اور بلوچستان کے گورنر کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کو ملے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاق میں حکومت سازی کے لیے جاری مذاکرات میں بہت سے معاملات طے پا چکے ہیں اور ایک معاہدے کا ڈرافٹ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں، تاہم پی ٹی آئی بھی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہے۔
18 ویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 91 میں بھی ترامیم کی گئیں جس میں صدرِ پاکستان کو پابند کیا گیا کہ وہ 21 روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کریں گے۔