حکمران اتحاد کو سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے سینیٹ میں 64 ارکین چاہئیں۔ حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت کے لیے مزید 7 اراکین درکار ہیں جو انہیں خیبر پختونخوا سے ملنا مشکل ہے۔ کے پی کے سے چار نشستیں جیتنے کے بعد بھی مزید 3 ارکین کی ضرورت ہو گی۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو کی سب سے چھوٹی صاحب زادی آصفہ بھٹو زرداری اپنے پارلیمانی کریئر کا آغاز کرنے جا رہی ہیں۔
دو اپریل کو سینیٹ کے انتخابات کے بعد سینیٹ میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آنے کا واضح امکان ہے۔
سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں کچے کے وسیع رقبے پر پانچ اضلاع میں امن و امان کی صورتِ حال متواتر خراب ہے۔ شکار پور، کشمور، گھوٹکی، سکھر اور جیکب آباد کے اضلاع کے 40 شہری کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں مغوی بنے ہوئے ہیں۔
سینیٹ انتخابات کے لیے دو اپریل کو سندھ اور پنجاب میں 12، 12 جب کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی 11،11 اور اسلام آباد کی دو نشستوں پر پولنگ ہو گی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چند روز قبل ظفر محمود کو چیئرمین (ارسا) تعینات کیا تھا، تاہم سندھ حکومت کے شدید احتجاج کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔
اسلام آباد سے ایک، سندھ سے دو اور بلوچستان سے تین خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب کے لیے متعلقہ اسمبلیوں میں پولنگ کا عمل صبح نو بجے سے شام چار بجے تک جاری رہے گا۔
قبائلی علاقے فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے باعث فاٹا کی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخاب نہیں ہو گا۔ اس طرح تقریباً 50 برس کے بعد فاٹا کے لیے سینیٹ میں مختص نشستیں ختم ہوجائیں گی۔ سینیٹ کی خالی ہونے والی بقیہ 48 نشستوں پر الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
نو مارچ کی صبح قومی اسمبلی پہنچا تو ایوان صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ اسٹیشن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ اسپیکر کی کرسی پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس براجمان تھے جنہیں صدارتی انتخاب کے لیے پریزائیڈنگ افسر تعینات کیا گیا تھا۔
سیاست سے دور آصف زرداری کی زندگی میں ہنڈریڈ ڈگری ٹرن اس وقت آیا جب ان کی منگنی سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بینظیر بھٹو سے ہوئی۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) جس نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کر رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ فیصلہ قانون کے مطابق کیا گیا ہے۔
حکمران اتحاد کو بڑے فیصلے کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت چاہیے۔ 336 اراکین کے ایوان میں حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت کے لیے درکار 224 اراکین کا تعداد چاہیے۔ اس وقت حکمران اتحاد میں 8 پارٹیاں شامل ہیں، جن کے قومی اسمبلی میں مجموعی طور اراکین کی تعداد 230 تک پہنچ گئی ہے۔
ایم کیو ایم اور سنی اتحاد کے اراکین ایک دوسرے کی جانب بڑھے لیکن دونوں اطراف کے سینئر ارکان نے بیچ بچاؤ کرایا اور اراکین کو دست و گریباں ہونے سے روک دیا۔
قومی اسمبلی کے پچھلے دو اجلاسوں سے تیسرے اجلاس میں یہ بھی مختلف تھا کہ اس اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین بھی حکمتِ عملی بنا کر اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
شہباز شریف نے 15ویں قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے چند روز قبل اسمبلی تحلیل کردی تھی جس کا مقصد 60 روز کے بجائے دنوں میں انتخابات منعقد کرانا تھا۔
پہلے دن کی طرح دوسرے دن کے اجلاس میں بھی شیر افضل مروت اور کچھ اور اراکین عمران خان کے چہرے والے ماسک پہن کر ایوان کے اندر گھومتے رہے۔
نواز شریف کے ایوان میں داخل ہونے پر مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے ’دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے عمران خان کے خلاف بھی نعرے لگائے جب کہ تحریکِ انصاف کے اراکین نواز شریف کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔
پنجاب اور سندھ میں حکومت سازی اور وزیرِ اعلیٰ کے عہدوں پر اُمیدواروں کی نامزدگیوں پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کو الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 41 کی شق 4 میں کہا گیا ہے کہ صدارت کے لیے انتخاب اس عہدے پر فائز صدر کی مدت ختم ہونے کے زیادہ سے زیادہ 60 دن اور کم سے کم 30 دن قبل کرایا جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے پنجاب اور سندھ اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر اراکین کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے لیکن پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ کامیاب اُمیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے باوجود مخصوص نشستیں نہیں مل سکیں۔
مزید لوڈ کریں