رسائی کے لنکس

'مشکل فیصلوں کا بوجھ شہباز شریف کو ہی اُٹھانا پڑے گا'


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • شہباز شریف پہلی بار 1988 میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے جب کہ 1990 میں وہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
  • مبصرین کے مطابق حکومت کے لیے سب سے پہلا چیلنج کابینہ بننے کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا ہے۔
  • میاں نواز شریف جن عہدوں پر رہے ہیں، ان میں سے بیشتر عہدوں پر ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نہ صرف رہ چکے ہیں مگر ان کے ریکارڈ بھی توڑ چکے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف ووٹ لے کر دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم پاکستان منتخب ہو گئے ہیں۔ شہباز شریف 11 اپریل 2022 کو پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔

شہباز شریف نے 15ویں قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے چند روز قبل اسمبلی تحلیل کردی تھی جس کا مقصد 60 روز کے بجائے دنوں میں انتخابات منعقد کرانا تھا۔

تاہم ملک بھر میں عام انتخابات اس سے بھی زیادہ تاخیر کا شکار ہو گئے مگر شہباز شریف کو 23ویں منتخب وزیر اعظم کی کرسی چھوڑنے کے بعد 24ویں منتخب وزیر اعظم کے طور پر دوبارہ وزارتِ عظمی کی کرسی مل رہی ہے۔

ماضی قریب میں پہلی بار وزیر اعظم کے انتخاب سے قبل ہی چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کا انتخاب ہو چکا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ سے وزیرِ اعظم تک کا سفر

72 برس کے نو منتخب وزیرِ اعظم شہباز شریف 23 ستمبر 1951 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے ایک با اثر تاجر خاندان سے تعلق رکھنے والے شہباز شریف لاہور چیمبر آف کامرس کے 1985 میں صدر بھی رہ چکے ہیں۔

شہباز شریف پہلی بار 1988 میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے جب کہ 1990 میں وہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1993 میں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مقرر کیے گئے۔ شہباز شریف پہلی مرتبہ 20 فروری 1997 کو وزیرِ اعلٰی پنجاب منتخب ہوئے۔ پرویز مشرف کے ملٹری رول کے بعد ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب میں فیملی کے ساتھ تقریباً آٹھ برس جلا وطن رہے۔

شہباز شریف دوسری بار آٹھ جون 2008 کو وزیرِ اعلٰی پنجاب منتخب ہوئے۔ وہ تیسری بار سات جون 2013 کو پنجاب کے وزیرِ اعلٰی منتخب ہوئے۔

سن 2018 کے انتخابات میں شہباز شریف رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ شہباز شریف نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے مقابلے میں وزیرِ اعظم کا انتخاب بھی لڑا۔ تاہم عمران خان 176 ووٹ لے کر وزیرِ اعظم منتخب ہوئے اور شہباز شریف 96 ووٹ لے پائے تھے۔ 2018 کے انتخاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی میں شہباز شریف اپوزیشن لیڈر مقرر کیے گئے جب کہ اسی اسمبلی میں ہی وہ وزیرِ اعظم بھی منتخب ہوئے۔

شہباز شریف اور ان کے بڑے بھائی نواز شریف کے ریکارڈز

عجیب اتفاق ہے کہ میاں نواز شریف جن عہدوں پر رہے ہیں، ان میں سے بیشتر عہدوں پر ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نہ صرف رہ چکے ہیں بلکہ ان کے ریکارڈ بھی توڑ چکے ہیں۔

میاں نواز شریف پہلی بار اپریل میں وزیرِ اعلٰی پنجاب منتخب ہوئے جب کہ شہباز شریف بھی پہلی بار اپریل میں وزیرِ اعلٰی منتخب ہوئے۔

نواز شریف نو اپریل 1985 سے چھ اگست 1990 تک یعنی پانچ برس تین ماہ اور 28 دن وزیر اعلی رہے مگر شہباز شریف نے 12 برس تین ماہ اور 30 دن وزیرِ اعلی کے عہدے پر رہنے کا ریکارڈ بنایا ہے۔

میاں نواز شریف قومی اسمبلی میں تین برس 17 دن اپوزیشن لیڈر رہے جب کہ شہباز شریف تین برس سات ماہ 22 دن قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رہے ہیں۔

نواز شریف پاکستان کے سب سے زیادہ تین بار وزیرِ اعظم منتخب ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں اور شہباز شریف دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے ہیں مگر نواز شریف کا یہ ریکارڈ ابھی بھی قائم ہے۔

اسی طرح نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے عہدے پر پاناما لیکس کیس میں نا اہلی تک براجمان رہے ہیں۔ ان کی نااہلی کے بعد شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر کے عہدے پر زیادہ وقت رہنے کا ریکارڈ ابھی بھی نواز شریف کے پاس ہی ہے۔

سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ نو منتخب وزیرِاعظم شہباز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے پالیسی ایک جیسی نہیں ہے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کے چلنے کی سوچ رکھتے ہیں جب کہ ان کے بڑے بھائی اسٹیبلشمنٹ کی ان کے حکومت کے دوران زیادہ مداخلت کو پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کے ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی ہر حکومت حادثات کا شکار رہی ہے۔

شہباز شریف حکومت کو درپیش مشکل ترین چیلنجز

شہباز شریف کی نئی حکومت کو درپیش چیلنجز پر تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اور چیلنج مہنگائی کا ہے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت کے لیے بڑا مسئلہ بن کر کھڑا ہے۔ ایسے میں حکومت کو آئی ایم ایف سے پروگرام لینا ہو گا جس سے مزید مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔

صحافی شہباز رانا کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے نیا پروگرام لینا بھی حکومت کے لیے مشکل عمل ہو گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو جون میں آئندہ مالی سال کا بجٹ، اس پروگرام کی شرائط کو سامنے رکھ کر بنانا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ اس بار خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری آئی ایم ایف کے معاہدے کا حصہ ہو سکتی ہے اور ڈالر کی قدر اوپن مارکیٹ پر چھوڑنے کی شرائط بھی معاہدے کا حصہ ہو سکتی ہیں۔

کیا پاکستان میں الیکشن کے بعد سیاسی استحکام آ سکے گا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:12 0:00

آئی ایم ایف معاہدہ اور اتحادی جماعتوں کا ردِ عمل

سینئر صحافی شہباز رانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 7.9 ارب ڈالر ہیں۔

آئی ایم ایف کم سے کم چار ماہ کی درآمدات کے زرِمبادلہ کے ذخائر موجود ہونے کی بھی شرائط عائد کر سکتا ہے جس کے لیے ملکی ذخائر کو 15 سے 16 ارب ڈالر تک لے جانا ہو گا۔

ان کے بقول پیپلز پارٹی حکومت کا ساتھ تو دینا چاہتی ہے مگر مشکل فیصلوں کا بوجھ لینا نہیں چاہتی، لہذٰا یہ بوجھ شہباز شریف کو ہی اُٹھانا پڑے گا۔ دیکھنا ہو گا کے آئی ایم ایف کے معاہدے پر عمل درآمد کے وقت ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی کیسے ری ایکٹ کرتے ہیں۔

سینئر صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ حکومت کے لیے سب سے پہلا چیلنج کابینہ بننے کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا ہے۔

اُن کے بقول آئی ایم ایف کا پروگرام رواں سال اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے مزید تین برس کا پروگرام لینا ہو گا جس کے لیے کافی تیاری درکار ہے۔

انتخابی نتائج میں تاخیر: کیا اسٹیبلشمنٹ نتائج مینیج کر رہی تھی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:05 0:00

مہتاب حیدر کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا نیا پروگرام پاکستان کی تاریخ کا سخت ترین پروگرام ہونے جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کے بعد پہلے دو برسوں کے دوران ٹیکسز میں اضافہ کرنا ہو گا۔

ان کے بقول مہنگائی میں اضافہ ہوا تو پالیسی ریٹ میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔

صحافی مہتاب حیدر کا مزید کہنا تھا کہ نئی حکومت کو آنے والے تین برسوں میں 75 سے 80 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض ادا کرنے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام ملا تو قرضے ری شیڈول ہو جائیں گے اور عالمی مالیاتی ادارے اور ملکوں سے مزید قرضے مل سکتے ہیں۔ اس لیے آئی ایم ایف کا پروگرام لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نظر نہیں آ رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو توانائی کے شعبے میں سرکولر ڈیبٹ کو کنٹرول کرنا ہو گا۔ انرجی مکس کو بہتر کرنا ہو گا اور پاور پروڈیوسرز کی کپیسٹی ری پیمنٹ کے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔

اُن کے بقول پاکستان میں ہر سال توانائی میں ہونے والے لاسز، چوری اور لیکیجز کی مالیت دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں عرصے سے چارٹر آف اکنامی کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں مگر مہتاب حیدر سمجھتے ہیں کے اس سے زیادہ چارٹر آف اسٹیبلٹی کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول ہمیں رولز آف گیمز طے کرنا ہوں گے، سب کو اپنا اپنا کام آئینی دائرے میں رہ کر کرنا ہو گا۔

کیا شہباز شریف اتحادی جماعتوں کو خوش رکھ سکیں گے؟

سولہویں قومی اسمبلی کے قیام سے پہلے ہی کچھ صحافتی اور سیاسی حلقوں میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ اسمبلی مدت مکمل نہیں کر پائے گی۔

شہباز شریف پہلی بار جب اپریل 2022 میں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے تب کسی نے نہیں سوچا تھا کہ شہباز شریف اس پیپلز پارٹی کے سہارے پر قائم ہونے والی حکومت کے سربراہ بن سکتے ہیں جس پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری سے متعلق خود وہ گھسیٹنے جیسے الفاظ استعمال کر چکے تھے مگر اتحادیوں کے سہارے پر چلنے والی حکومت میں شہباز شریف پہلی بار بھی وزیر اعظم بن رہے ہیں۔

دوسری مرتبہ بھی وہ ایسی حکومت کے سربراہ منتخب ہوئے ہیں جو اتحادیوں کے سہارے کے بغیر چل نہیں سکتی اور اس کو سخت اپوزیشن کا بھی سامنا ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق ملک میں سیاسی عدم استحکام میں اضافے کا امکان بھی دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت کے اتحادیوں کے درمیان بھی اختلافات کے خدشات ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG