امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان جاری جھڑپوں سے امن معاہدے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
زلمے خلیل زاد کا یہ بیان اتوار کو افغانستان کے صوبے غور میں ہونے والے ایک خودکش کار بم دھماکے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس حملے میں کم از کم 13 افراد ہلاک جب کہ 100 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
مذکورہ دھماکے کی ذمہ داری کسی بھی گروہ نے تاحال قبول نہیں کی ہے۔
زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے اور تشدد کی کارروائیوں میں کمی لانی چاہیے۔
ادھر افغان حکومت کہہ رہی ہے کہ طالبان نے پرتشدد کارروائیوں میں اس لیے اضافہ کیا ہے تاکہ وہ مذاکرات کی میز پر اپنی پوزیشن مضبوط کر سکیں۔
زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ اس طرز کا نکتۂ نظر افغان امن عمل کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ افغان رہنماوں کو ماضی کی غلط فہمیوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب طالبان نے افغانستان میں امریکی فضائی حملوں کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جب کہ امریکی فوج نے طالبان جنگجوؤں کے خلاف اپنے فضائی حملوں کا دفاع کیا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ صوبۂ ہلمند کی لڑائی کے بعد سے امریکی افواج نے ڈرون اور جنگی جہازوں کے ذریعے نہرِ سراج، خوشکوہ، بابا جی، ملگیر اور باند برق کے علاقوں کو نشانہ بنایا ہے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان کرنل سونی لیجیٹ نے طالبان کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ ان حملوں سے معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پوری دنیا ہلمند میں طالبان کی جارحانہ کارروائیوں کا مشاہدہ کر رہی ہے جس کے باعث ہزاروں بے گناہ افغان زخمی اور بے گھر ہو گئے ہیں۔
کابل میں مقیم افغان صحافی عصمت قانع ملکی حالات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال بہت مخدوش ہو چکی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اس سے زیادہ بدتر نہیں ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں قیامِ امن کے حوالے سے جو لوگوں کی امیدیں تھیں، وہ اب آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔
عصمت قانع نے کہا کہ اگر طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ لڑائی میں شدت کے ذریعے وہ مذاکرات کی میز پر اپنی پوزیشن مستحکم کر لیں گے، تو یہ صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کے بقول افغانستان میں ہزارہ اور تاجک برادری کے علاوہ اب پشتونوں کی سوچ بھی تیزی سے بدل رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے مزید کہا کہ اگر افغانستان میں طالبان کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں میں جلد کمی واقع نہیں ہوتی تو خدشہ ہے کہ پاکستان اور ایران جیسے ممالک، جو ان کے بقول طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، کا رویہ بھی بدل سکتا ہے۔
افغان صحافی کے مطابق افغانستان کی معاشی حالت بہت بدتر ہے اور لوگ دو وقت کی سوکھی روٹی کھانے کو ترس رہے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ ملک مزید جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
افغان امور کی ماہر آمنہ خان اسلام آباد کے 'انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز' میں بطور ڈائریکٹر فرائض انجام دے رہی ہیں۔ موجودہ صورتِ حال پر وہ کہتی ہیں کہ دوحہ معاہدے کے تحت طالبان امریکی فورسز اور ان کے اتحادیوں کے خلاف تو کارروائیاں نہیں کر رہے لیکن افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ کو طالبان کو پرتشدد کارروائیوں میں کمی پر مجبور کرنا چاہیے۔ کیوں کہ لڑائی اور مذاکرات ایک ساتھ جاری نہیں رہ سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں اطراف سے افغانستان کے بے گناہ افراد مارے جا رہے ہیں اور اگر اس لڑائی کو بروقت نہ روکا گیا تو حالات کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
آمنہ خان کا کہنا تھا کہ طالبان اگر سیز فائر پر آمادہ ہوتے ہیں تو یہ کسی بھی طرح سے ان کی شکست نہیں ہوگی۔ بلکہ ان کا یہ اقدام سیاسی مستقبل کے لیے بہت زیادہ کارگر ثابت ہو گا۔