امریکہ نے یمن امن مذاکرات کے آغاز کا خیرمقدم کیا ہے جو جمعرات سے کویت میں شروع ہوئے، جس سے قبل اِن میں اُس وقت تاخیر ہوتی گئی جب حکومت کی حامی افواج کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی شکایت کرتے ہوئے مخالفین کے وفود گھروں تک محدود رہے۔
محکمہٴ خارجہ کے ترجمان، جان کِربی نے کہا ہے کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ تمام فریق کویت پہنچ چکے ہیں اور مذاکرات شروع ہونی کی پوری تیاری کرلی گئی ہے‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے خیال میں یمن میں حالیہ جنگ زیادہ تر رک چکی ہے۔
کربی نے کہا کہ ’’امریکہ سمجھتا ہے کہ یہ مذاکرات اب یمن کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم فریق پر زور دیتے ہیں کہ وہ بات چیت کو امید کے ساتھ جاری رکھیں، تاکہ یہ فوجی تنازعہ فوری طور پر ختم ہوسکے اور ایک پُرامن سیاسی عمل لوٹ آئے‘‘۔
مذاکرات کویت میں پیر سے باضابطہ طور پر شروع ہوں گے۔ حوثی باغیوں کے ارکان اور سابق یمنی رہنما علی عبداللہ صالح کی جماعت، جو اِن باغیوں کی حامی ہے، بدھ کے روز یمن سے روانہ ہوئے، جس سے قبل اُنھیں یقین دہانی کرائی گئی کہ جنگ بندی کی پاسداری کی جائے گی۔
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی، اسماعیل شیخ احمد نے کہا ہے کہ اس عمل میں ملیشیاؤں اور مسلح گروہوں کے انخلا، بھاری ہتھیاروں کو حکومت کے حوالے کرنے، سلامتی کے عبوری انتظامات، سرکاری اداروں کی بحالی اور قیدیوں اور زیر حراست افراد کے بارے میں ایک خصوصی کمیٹی کی تشکیل پر دھیان مرکوز رکھا جائے گا۔
حوثیوں نے یمن کے دارالحکومت، صنعا پر کنٹرول جاری رکھا ہے، جسے اُنھوں نے ستمبر 2014ء میں اسے فتح کیا تھا۔ چھ ماہ بعد، اُنھوں نے جنوب کی جانب پیش قدمی کی، جس حملے میں عدن کی بندرگاہ کو فتح کیا گیا اور صدر عبدو ربو منصور ہادی سعودی عرب بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
تب سے، ہادی اور اُن کی حکومت عدن سے کام کر رہی ہے، جب کہ سعودی عرب کی قیادت والا اتحاد ایک سال سے بم باری کرتا رہا ہے، جس کے باعث حوثی پسپائی پر مجبور ہوئے۔ تنازعے کے باعث 6400 سے زائد افراد ہلاک جب کہ لاکھوں لوگ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کے طلب گار ہیں۔