یمن میں نئی جنگ بندی کا اتوار کی نصف شب سے اطلاق ہو گیا ہے اور تمام فریقین نے اس پر عمل پیرا رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
جنگ بندی معاہدے کا مقصد آئندہ ہفتے کویت میں ہونے والی امن بات چیت کو ایک موقع دینا ہے۔
سعودی زیر قیادت اتحاد نے ایک بیان میں کہا کہ "عرب اتحاد یمن میں صدر ہادی کے مطالبے پر اتوار نصف شب سے نافذ العمل جنگ بندی کا احترام کرے گا، لیکن یہ کسی باغی حملے کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔"
ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے بھی کہا ہے کہ وہ معاہدے کا احترام کریں گے لیکن اگر ان پر حملہ ہوا تو اس کا جواب بھی دیں گے۔
جنگ بندی شروع ہونے سے قبل متعدد علاقوں سے لڑائی کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ اطلاعات کے مطابق ان میں کم ازکم 20 افراد ہلاک ہو گئے۔
عرب دنیا کے اس پسماندہ ترین ملک میں گزشتہ ایک سال میں متعدد جنگ بندی معاہدے ناکام ہو چکے ہیں اور شہریوں نے امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ تازہ معاہدہ کامیاب ہو گا۔
باغیوں کے زیر قبضہ دارالحکومت صنعاء میں موجود ایک سرکاری ملازم نے خبر رساں ایجنسی "روئٹرز" کو بتایا کہ "میں جنگ سے، تباہی سے اور اس سب سے تنگ آچکا ہوں۔ لوگوں کے لیے روزگار، بجلی، پانی کے بغیر بہت مشکل ہے اور اس خوف کے ساتھ کہ کسی بھی لمحے بمباری سے کوئی اپنا پیارا ہلاک ہو سکتا ہے۔"
حوثیوں نے صنعاء پر 2014ء میں قبضہ کر لیا تھا جس کے باعث صدر ہادی کو جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب منتقل ہونا پڑا اور گزشتہ سال ہی وہ وطن واپس آئے۔
سعودی عرب کے زیر قیادت اتحادی ممالک نے یمن میں گزشتہ سال حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کی مہم شروع کی اور بعد ازاں یہاں زمینی دستے بھی بھیج دیے۔
فضائی حملوں اور لڑائی کی وجہ سے یمن میں اب تک چھ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور انسانی بحران کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن کی 80 فیصد شہری آبادی کو خوراک اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔