ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل: پاکستان اور انگلینڈ میں سے کس کا پلڑا بھاری ہے؟

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فاتح کون ہوگا؟ اس کا فیصلہ اتوار کو میلبرن میں ہونے والے فائنل میں ہوجائے گا جس میں 2009 کی فاتح ٹیم پاکستان کا مقابلہ 2010 کی چیمپئن انگلینڈ سے ہوگا۔

اس میچ میں جگہ بنانے کے لیے پاکستان نے نیوزی لینڈ کو سیمی فائنل میں زیر کیا تھا جب کہ انگلینڈ نے بھارت کو 10 وکٹوں سے شکست دے کر ٹائٹل میچ کے لیے کوالی فائی کیا۔

اتوار کو جب پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم اور جوس بٹلر میدان میں اتریں گے تو ان کے پاس بہترین اوپنرز اور بہترین بالرز کا ایک ایسا ذخیرہ ہوگا جس نے میگا ایونٹ کے دوران کئی میچوں میں ٹیم کو کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ میچ شائقین کرکٹ کو 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی بھی یاد دلائے گا جس میں پاکستان نے انگلینڈ کو شکست دے کر پہلی اور اب تک آخری مرتبہ 50 اوورز کا ورلڈ کپ جیتا تھا، یہ میگا ایونٹ بھی آسٹریلیا ہی میں کھیلا گیا تھا، اور اس کے فائنل کی میزبانی میلبرن نے کی تھی۔

ایونٹ کا سب سے بڑا میچ بارش سے متاثر ہونے کی بھی اطلاع ہے، جس کے لیے منتظمین نے ایک اضافی دن مختص کیا ہوا ہے۔ اگر دوسرا دن بھی بارش کی نذر ہوا تو قوانین کے مطابق دونوں ٹیموں کو فاتح قرار دے دیا جائے گا۔

انگلینڈ کو زیادہ ورلڈ کپ فائنل کھیلنے اور پاکستان کو جیتنے کا تجربہ حاصل ہے!

پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیمیں اب تک کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں صرف ایک مرتبہ فائنل میں آمنے سامنے آئی ہیں۔ یہ مقابلہ مارچ 1992 میں میلبرن کےمقام پر ہی ہوا تھا جس میں پاکستا ن کے سابق کپتان اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے گرین شرٹس کو فتح دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

تب بھی تجربے کے لحاظ سے وہ میچ پاکستان کا پہلا ورلڈ کپ فائنل تھا، جب کہ انگلینڈ کی ٹیم تیسری مرتبہ فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی تھی جہاں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

انگلش ٹیم نے پہلی مرتبہ پچاس اوورز کے ورلڈ کپ میں کامیابی 2019 میں حاصل کی، جب اس نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد لارڈز کے مقام پر نیوزی لینڈ کو ہرایا۔

ایک طرف شائقین کرکٹ 1992 کے ورلڈ کپ اور 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں مشابہت تلاش کرنے میں مصروف ہیں، تو دوسری طرف ایسے شائقین بھی ہیں جو حال ہی میں انگلینڈ اور پاکستانی کی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے نتیجے کے بعد انگلینڈ کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔

انگلینڈ نےسات میچوں پر مشتمل اس سیریز میں پاکستان کو ہوم گراؤنڈ پر تین کے مقابلے میں چار میچز میں شکست دے کر سیریز اپنے نام کی۔ تاہم اس کے بعد پاکستان ٹیم نے میگا ایونٹ میں جس طرح کم بیک کیا۔ اسے مبصرین شان دار قرار دے رہے ہیں۔

اگر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں جگہ بنانے والی دونوں ٹیموں کا جائزہ لیا جائے تو انگلینڈ کے پاس آئی سی سی ایونٹ کے فائنل کھیلنے کا تجربہ زیادہ ہے، لیکن پاکستان کے پاس ٹرافیوں کی تعداد زیادہ ہے۔

اب تک انگلش ٹیم نے دو بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا ہے۔ 2010 میں پال کولنگ وڈ کی قیادت میں انگلینڈ نے آسٹریلیا کو سات وکٹ سے شکست دے کر پہلی مرتبہ کسی آئی سی سی ایونٹ کا ٹائٹل اپنے نام کیا، لیکن 2016 میں فائنل میں انہیں ویسٹ انڈیز نے چار وکٹ سے شکست دے کر تاریخ دہرانے سے روکا۔

یہ وہی فائنل تھا جس میں ویسٹ انڈین بلے باز کارلوس بریتھویٹ نے انگلش آل راؤنڈر بین اسٹوکس کی چار مسلسل گیندوں پر چار چھکے رسید کرکے اپنی ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔

تیسرا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل کھیلنے والی انگلش ٹیم اس سے قبل چار بار پچاس اوورز کے ورلڈ کپ کے فائنل میں جگہ بناچکی ہے۔ 1979 میں اسے ویسٹ انڈیز نے، 1987 میں آسٹریلیا نے اور 1992 میں پاکستان نے ٹرافی سے محروم رکھا، البتہ 2019 میں اس نے چوتھی بار میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر یہ ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔

اور اگر 2004 اور 2013 میں آئی سی سی ٹرافی کے فائنل کو شامل کیا جائے تو اتوار کو ہونے والے فائنل سے قبل انگلینڈ نے مجموعی طور پر آٹھ آئی سی سی فائنل کھیلے ہیں جس میں اسے صرف دو میں کامیابی ملی ہے، جب کہ چھ میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

2004 میں اسے ویسٹ انڈیز نے اوول میں اور 2013 میں ایجبیسٹن میں بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی، جس میں سے ایک کا بدلہ اس نے اس ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں اتار دیا۔

اس کے برعکس پاکستان نے آئی سی سی ایونٹ کے فائنل تو کم کھیلے لیکن ٹرافی کی تعداد میں انگلینڈ سے آگے ہے۔ انگلینڈ کی طرح پاکستان کا بھی یہ تیسرا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل ہے۔ اس سے قبل وہ 2007 میں بھارت سے شکست کھاچکے ہیں جبکہ 2009میں سر ی لنکا کو زیر کر کے چیمپین بن چکے ہیں۔

ففٹی اوورز کے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم نے سن 1992 میں اپنا پہلا فائنل کھیلا جہاں اس نے انگلینڈ کو شکست دی، جب کہ سات سال بعد 1999 میں انگلینڈ میں کھیلے گئے فائنل میں پاکستان کو آسٹریلیا نے شکست دی۔

اگر 2017 میں ہونے والی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل کو شامل کرلیا جائے تو پاکستان نے مجموعی طور پر آئی سی سی ایونٹس کےپانچ فائنل کھیلے جس میں سے تین میں اسے کامیابی، اور دو میں ناکامی ہوئی۔

پاکستان بمقابلہ انگلینڈ، مقابلہ دو بہترین اوپننگ جوڑیوں کا!

اگر اتوار کو کھیلےجانے والے فائنل کو دو ایسی ٹیموں کے درمیان مقابلہ کہا جائے جن کے پاس اننگز کا آغاز کرنے والے بہترین بلے باز ہیں، تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ سیمی فائنل میں بھارت کو اگر انگلش اوپنرز نے دس وکٹوں سے ہرایا تو اس کی بنیاد گزشتہ سال پاکستان نے رکھی، جہاں بھارتی ٹیم کو پہلی مرتبہ ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں دس وکٹ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

انگلینڈ کے اوپنرز ایلکس ہیلز اور جوس بٹلر نے ایونٹ میں اب تک شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اور صرف پانچ پانچ میچ کھیل کر دو دو نصف سینچریوں کی مدد سے بالترتیب 211 اور 199 رنز بنائے ہیں۔ دونوں کا اسٹرائیک ریٹ 140 سے زیادہ ہے اور اوسط بھی 50 کے لگ بھگ جس کا اصل امتحان پاکستان کے پیسرز کے سامنے ہوگا۔

اس کے مقابلے میں پاکستانی اوپنرز بابر اعظم اور محمد رضوان ایونٹ کے آغاز میں زیادہ متاثر نہیں کرسکے تھے، تاہم ناک آؤ ٹ مرحلے میں ان کا فارم میں آنا پاکستان کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔

اب تک چھ میچوں میں محمد رضوان 109 عشاریہ پانچ آٹھ کے اسٹرائیک ریٹ سے 160 رنز بنانے والے سب سے کامیاب پاکستانی بلے باز ہیں جب کہ سیمی فائنل میں نصف سینچری اسکور کرنے والے بابر اعظم کے مجموعی رنز کی تعداد 92 ہے۔

پاکستانی اوپنرز نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں سینچری اسٹینڈ بناکر نہ صرف انگلینڈ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی بلکہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ سینچری پارٹنر شپ بنانے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔

سیمی فائنل سے قبل مڈل آرڈر بلے باز شان مسعود اور افتخار احمد کی کوششوں کی وجہ سے پاکستانی بالرز کو متعدد میچوں میں ایسا ہدف ملا جس کا وہ دفاع کرسکے۔

اس وقت شان مسعود 137 اور افتخار احمد 114 رنز کے ساتھ نمایاں بلے باز ہیں جن کا اسٹرائیک ریٹ115 سے زیادہ ہے۔

آل راؤنڈرز سے لیس دونوں ٹیموں کی مینجمنٹ مڈل آرڈر سے پریشان

فائنل میں پہنچنے والی دونوں ٹیموں کو ایک ہی جیسے مسائل کا سامنا ہے، اگر انگلینڈ کے بلے باز ڈیوڈ ملان انجرڈ ہوکر ایونٹ سے باہر ہوگئے ہیں تو پاکستان کے فخر زمان بھی اب اسکواڈ کا حصہ نہیں۔

دونوں ٹیموں کی مڈل آرڈر بیٹنگ اس وقت مشکلات کا شکار ہے جس سےصرف پاکستان کے لیے نوجوان محمد حارث اور انگلینڈ کے ہیری بروک ہی نجات دلاسکتے ہیں۔ دونوں کھلاڑی اپنی جارح مزاجی کی وجہ سے ایک الگ مقام بنانے کے اہلیت رکھتے ہیں۔

آل راؤنڈرز کے شعبے میں بھی دونوں ٹیمیں خود کفیل ہیں۔ اگر پاکستان کے شاداب خان ، افتخار احمد اور محمد نواز اچھی فارم میں ہیں تو انگلش ٹیم بھی معین علی اور بین اسٹوکس پر انحصار کررہی ہے، جو بڑے میچ کے کھلاڑی ہونے کا ثبوت فائنل میں دے سکتے ہیں۔

کیا انجرڈ مارک وڈ فائنل میں انگلش ٹیم کو دستیاب ہوں گے؟

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اگر کسی کھلاڑی نے ہر ٹیم کے بلے بازوں کو پریشان کیا ہے تو وہ ہے انگلش بالر مارک وڈ،جس نے 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک دو نہیں، 31 گیندیں ایونٹ میں پھینکیں۔ سیمی فائنل میں انجری کی وجہ سے وہ شرکت تو نہ کرسکے لیکن ان کی ٹیم پرامید ہے کہ وہ فائنل میں ٹیم کا حصہ ہوں گے۔

مارک وڈ کے ساتھ ساتھ انگلینڈ کو سیم کرن کی خدمات حاصل ہیں جو ایونٹ میں اب تک دس کھلاڑیوں کو واپس پویلین بھیج چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کرس ووکس اور کرس جورڈن بھی ٹیم کا حصہ ہیں جس کے اسپین اٹیک کو لیگ اسپنر عادل رشید لیڈ کرتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کی بالنگ کو ماہرین ایونٹ کا بہترین اٹیک قرار دے رہے ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی کی انجری سے واپسی سے جو اٹیک مضبوط ہوا ہے اس کا حصہ حارث رؤف، نسیم شاہ ، محمد وسیم جونیئر، اور محمد حسنین ہیں۔ جو سب کے سب 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینکنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

جنوبی افریقہ کے خلاف تین، بنگلہ دیش کے خلاف چار ، اور سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف دو وکٹیں حاصل کرنے والے شاہین آفریدی نے ایونٹ میں اب تک دس کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہے، جو لیگ اسپنر شاداب خان اور سیم کرن کی دس دس وکٹوں کے برابر ہے۔

ایونٹ میں باقی رہ جانے والے بالرز میں سے پاکستان کے محمد وسیم سات، اور حارث رؤف چھ جب کہ انگلینڈ کے مارک وڈ نو، اور بین اسٹوکس اور کرس ووکس پانچ پانچ وکٹوں کے ساتھ نمایاں ہیں۔