|
اسرائیلی افواج نے لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جنگ میں زمینی اور فضائی کارروائیاں تیز کر دی ہیں جس سے مبصرین کی نظر میں اسرائیل کو وقتی طور پر کچھ فائدہ تو ہو سکتا ہے مگر مشرق وسطی کے اہم ملک میں تباہی سے امریکہ اور خطے کے ممالک کو پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
غزہ جنگ شروع ہونے کے ایک سال بعد ماہرین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پہلے ہی اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست تصادم کے خطرات منڈ لا رہے ہیں جبکہ محصور فلسطینی پٹی پر انسانی بحران کے خاتمے اور ہلاکتوں کی تعداد رکنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
دوسری طرف اسرائیل کے عوام بھی اپنے آپ کو مسلسل حالت جنگ میں تصور کرتے ہیں۔
عالمی تناظر میں مبصرین امریکہ میں پانچ نومبر کو ہونے والے انتخابات کے وقت کو کئی حوا لوں سے اہم قرار دیتے ہیں جبکہ واشنگٹن روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ سے نظریں نہیں ہٹا سکتا اور چین سے مسابقت میں بھی شدت آتی جا رہی ہے۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے دو ہمسایہ ملک، غزہ سے متصل اور اسرائیل سے قریبی تعلقات رکھنے والا مصر اور نصف سے زیادہ فلسطینی آبادی والا اردن اس وقت سلامتی کے نئے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں جہاں دونوں ملکوں کو اقتصادی، سیاسی اور امن و امان کے خطرات کا سامنا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ نے لبنان پر اسرائیلی حملوں کے شروع ہونے کے بعد سے دو ہزار ہلاکتوں اور 12 لاکھ لوگوں کے بے گھر ہونے کے بعد خبر دار کیا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ میں شدت آنے سے لبنان دوسرا غزہ بن سکتا ہے۔ عالمی ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ لبنان میں اتنی بڑی متاثرہ آبادی کو انسانی امداد فراہم کرنا انتہائی کٹھن ہو گا۔
اسرائیل کا موقف کیا ہے؟
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے 26 ستمبر کو اعلان کیا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی فوج کو لبنان میں حزب اللہ کو "بھرپور طاقت" سے نشانہ بنانے کا حکم دیا ہے۔
سال 2006 کی جنگ کے بعد سے اسرائیل نے گزشتہ ہفتے لبنان میں شدید ترین بمباری کی ہے جس میں دارالحکومت بیروت میں اہداف پر حملے بھی شامل ہیں۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق لبنان میں ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
حزب اللہ نے اسرائیل پرمیزائل داغنے اور اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے دعوے کیے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق سرحد پار فائرنگ کے نتیجے میں شمالی اسرائیل میں 34 افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔
حزب اللہ کے حملوں کے بعد اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کے مطابق ملک کے شمالی علاقوں سے 68,000 رہائشی بے گھر ہو گئے ہیں۔
اردن، مصر اور عرب ملکوں میں بے چینی
ریاست نیویارک میں کمیونیکشنز کے ماہر تعلیم فیضان الحق کہتے ہیں کہ خصوصاً مصر اور اردن کے عوام میں پہلے غزہ اور اب لبنان میں بگڑتی ہوئی صورت حال اور جنگی تباہی کے باعث بے چینی پائی جاتی ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ ایران نے اسرائیل کے خلاف اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا ہے جب کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر اور بحرین سمیت عرب ملکوں کی حکومتوں نے غزہ پر کوئی مضبوط موقف اختیار نہیں کیا۔"
واشنگٹن میں پولی ٹیکٹ تحقیقی ادارے کے ماہر عارف انصار کہتے ہیں کہ غزہ سے مصر جانے والی راہداری پر بھی اسرائیل نے کنٹرول حاصل کرلیا ہے جو کہ اسرائیل اور مصر کے درمیان تعاون اور تعلقات کے معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوسری طرف نیتن یاہو نے ایک نقشے کے ذریعہ ایران، عراق، شام اور یمن کو اسرائیل کے لیے خطرہ قرار دیا ہے جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ "گریٹر اسرائیل" کے منصوبے پر کام کررہے ہیں۔
"اس صورت حال میں عرب حکمرانوں کو عوامی پریشر کا سامنا ہو گا ۔ اور اگر جنگ طوالت پکڑتی ہے تو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین،جیسے ملک، جو ابراہیمی معاہدوں کے تحت اسرائیل سے بہتر سفارتی تعلقات استوار کرنے پر کام کر رہے ہیں وہ بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔"
لبنان میں لڑائی اور اسرائیل ایران تصادم کے امکانات
مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے سربراہ نصراللہ کی اسرائیل کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ایران اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے جبکہ اسرائیلی اقدامات نے ایران اور ایرانی پراکیسز کی سکیوریٹی میں موجودخامیوں کو نمایاں کر دیا ہے۔
عارف انصار کے مطابق ایسے میں ایران اپنی اتحادی عسکریت پسند تنظیموں کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کے لیے اسرائیل کے خلاف ردعمل ظاہرکر رہا ہے۔
واضح رہے کہ ایران نے رواں سال اپریل کے بعد سے اسرائیل پر دو بار میزائل حملے کیے ہیں جن میں سے زیادہ تر کو امریکہ اور اسرائیل نے انہیں فضا میں ہی غیر موثر بنا دیا تھا۔
اسرائیل نے گزشتہ ہفتے کے ایرانی حملے کے بعد جوابی کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی خطر ناک حد تک بڑھ گئی ہے لیکن دونوں میں باقاعدہ روایتی جنگ کا زیادہ امکان نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
فیضان الحق کہتے ہیں کہ اسرائیل اور ایران دونوں میں سے کوئی بھی ملک اس روایتی تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ان کے مطابق ایران اپنا نقصان نہیں چاہے گا بلکہ وہ اس بات کو اپنی کامیابی سمجھے گا کہ اسرائیل لبنان میں زمینی حملہ کرکے الجھا رہے کیونکہ ایران خود کو اس وقت سال 2006 کے مقابلے میں ایک بہتر حالت میں سمجھتا ہے۔
دوسری طرف نتین یاہو نے عسکریت پسند گروپوں کے خلاف سخت کارروائیاں کرکے اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر کیا ہے۔
عارف انصار کہتے ہیں کہ اگرچہ ایران اپنی حلیف عسکریت پسندوں تنظیموں کے ذریعہ گوریلا لڑائی کو ترجیح دے گا، تاہم اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست جنگ کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔
ان کے بقول تہران سمجھتا ہے کہ اس کی مقرر کردہ سرخ لکیر سے بات اس وقت آگے نکل گئی جب اسرائیل نے حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایرانی سرزمین پر ہلاک کردیا۔
تاہم، عارف انصار کے مطابق پھر بھی ایران کی یہ کوشش ہے کہ وہ حالات کو بے قابو نہ ہونے دے اور شاید اسی لیے ایران کے اعتدال پسند صدر مسعود پیزشکیان نے حال ہی میں یہ بیان بھی دیا ہے کہ تہران عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاملے پر مذاکرات کر سکتا ہے۔
ادھر حزب اللہ نے بھی کہا ہے کہ وہ لبنان کی لڑائی میں جنگ بندی پر اسرائیل سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔
عارف انصار کہتے ہیں کہ عسکری کارروائیوں سے "اسرائیل کچھ فوری فوائد تو حاصل کر سکتا ہے لیکن حتمی طور پر اس کی سلامتی کا دارو مدار اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے دو ریاستی حل میں ہی ہے۔"
امریکہ کے لیے عالمی چیلنجز میں اضافہ
مبصرین سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطی میں جاری لڑائی میں اسرائیل، ایران اور امریکہ تین بڑے فریق ہیں۔
تازہ ترین تناظر یہ ہے کہ امریکہ، جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا اتحادی بھی ہے، خطے میں وسیع تر جنگ کو روکنا چاہتا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکہ میں الیکشن کے وقت سے فائدہ اٹھا کر عسکری تنطیموں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر سکیوریٹی زون یا بفر زون بنانا چاہتے ہیں جبکہ ایران اپنے مفادات کی ہر صورت حفاظت کرنا چاہتا ہے۔
عارف انصار کہتے ہیں کہ اسرائیل تو یہ بھی چاہتا ہے کہ امریکہ براہ راست اس جنگ میں اس کے ساتھ شامل ہوجائے لیکن واشنگٹن کی کوشش ہے کہ یہ جنگ وسیع تر تنازع کی شکل اختیار نہ کرے کیونکہ اس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے وسیع تر ہونے اور ایرانی اقدامات کے نتیجے میں تیل کی قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی اور آبنائے ہرمز کے راستے تیل کی تجارت بھی شدید متاثر ہوگی جو کسی بھی ملک کے لیے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔
SEE ALSO: امریکہ لبنان میں اقوامِ متحدہ کے امن دستوں کو خطرے میں نہیں دیکھنا چاہتا: محکمۂ خارجہفیضان الحق کہتے ہیں کہ جنگ کا پھیلنا کسی بھی طور امریکہ کے حق میں نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت امریکہ کو پہلے ہی روس کی یوکرین کے خلاف جنگ جاری جنگ توجہ ہٹنے یا کم ہونے کا معاملہ درپیش ہے۔
انہوں نے وی او اے کو بتایا، "امریکہ کی یوکرین میں جاری جنگ پر توجہ کم ہونے ہونے کی صورت میں روس اور ایران کو براہ راست فائدہ ہوگا۔ دوسری طرف سپلائی چین میں بھی خلل پڑ سکتا ہے۔"
فیضان الحق کہتے ہیں کہ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ اسرائیل کو لبنان میں سخت گیر عسکریت پسندوں کی جانب سے غیر متوقع مزاحمت کا سامنا کر پڑ سکتا ہے جو اسے لڑائی کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔
ان کے مطابق یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اگر اسرائیلی عسکری کارروائیوں یا لبنان کے کچھ علاقے پر قبضے سے دوسرے عرب ملکوں میں عدم استحکام یا عوامی تحریکیں بھڑک اٹھتی ہیں تو اس سے امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔
فیضان الحق کا خیال ہے کہ اسرائیل اپنے دفاع کی دلیل اور "تھریٹ پرسیپشن" کو استعمال کرتے ہوئے امریکی الیکشن ہونے تک لبنان اور دوسرے مقامات پر زیادہ سے زیادہ عسکری حملے کرے گا کیونکہ ان کے بقول انتخابات کے نتیجے میں آنے والا نیا امریکی صدر بڑی کارروائیوں اور مشرق وسطی میں جنگ پھیلنے کی مخالفت کرے گا۔
روس کی یوکرین کے خلاف جنگ سے پیدا ہونے والے خطرات کے حوالے سے فیضان کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے مقابلے میں نیا امریکی صدر مشرقی یورپ کو درپیش سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کو امریکی پالیسی میں ترجیح دے گا۔