2010ء ماحولیات کے لیے کڑا سال

2010ء ماحولیات کے لیے کڑا سال

پاکستان میں قیامت خیز سیلابوں میں ملک کا پانچواں حصہ زیرِ آب آ گیا۔ کین کُن میں اقوامِ متحدہ کے تحت آب و ہوا کے بارے میں مذاکرات کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔ توانائی استعمال کرنے والے سب سے بڑے ملک کی حیثیت سے چین نے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ امریکہ کی تاریخ میں ساحلِ سمندر کے نزدیک تیل پھیلنے کے بدترین واقعے کے بعد، خلیج میکسیکو میں ماہی گیری کی صنعت ٹھپ ہو گئی۔ یہ وہ اہم واقعات ہیں جن سے 2010 میں دنیا کا ماحول متاثر ہوا۔

امریکہ میں موسم کے بارے میں ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ 1880 سے شروع ہوا۔ نیشنل اوشینک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق، اس کے بعد سے اب تک، 2010 گرم ترین سال تھا۔ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے صدرجوناتھن لیش کہتے ہیں کہ اس سال دنیا میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے جو آب و ہوا میں تبدیلی کا پیش خیمہ تھے۔ ”سائبیریا میں جنگلوں میں آگ لگنا، پاکستان میں قیامت خیز سیلاب، گرین لینڈ میں برف کی چٹان کے ایک حصے کا گِر جانا اور تاریخ میں مونگوں کی بہت بڑی آبادی کا رنگ بدلنا اور ہلاک ہو جانا، یہ سب ایسے واقعات ہیں جن کے بارے میں سائنسدانوں نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ دنیا میں حدت بڑھنے کے نتیجے میں واقع ہوں گے۔“

ارتھ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے صدر لاسٹر براؤن کے لیئے بھی دنیا میں گرمی میں اضافہ، 2010 کا اہم واقعہ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ موسم میں انتہا درجے کی تبدیلی، خشک سالی اور جنگلات کی آگ کے نتیجے میں روس میں غلے کی پیداوار میں چالیس فیصد کمی ہوگئی۔ ایک ایسے ملک کے لیئے جو گذشتہ سال تک گیہوں بر آمد کرنے والا ایک بڑا ملک تھا، یہ بہت بڑی تباہی ہے۔ اس سال اسے گیہوں در آمد کرنا پڑے گا اور اس نے گیہوں کی بر آمد پر پابندی لگا دی ہے۔ لاسٹر براؤن نے آب و ہوا میں تبدیلی کی کچھ اور پریشان کن علامتیں بھی دیکھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ جولائی میں پاکستان میں سیلاب آنے سے پہلے، وہاں درجہ حرارت اتنا زیادہ ہو چکا تھا جو ایشیا میں پہلے کبھی ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ جنوبی پاکستان میں دریائے سندھ کے طاس کے علاقے میں یہ 53 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ چکا تھا۔

وہ کہتے ہیں”اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمالیہ کے کوہستانی سلسلے میں گلیشیئرز، جن سے دریائے سندھ کے معاون دریاؤں کو پانی ملتا ہے، اور دریائے سندھ جو پاکستان کی شہ رگ ہے، بارشیں شروع ہونے سے پہلے ہی بھرنا شروع ہو گئے کیوں کہ پہاڑوں پر برف بہت تیزی سے پگھل رہی تھی۔“

2010 وہ سال بھی تھا جب چین جو 2009 میں گرین ہاؤس گیس پیدا کرنے کے معاملے میں امریکہ سے آگے نکل گیا تھا، توانائی خرچ کرنے والا امریکہ سے بھی بڑا ملک بن گیا۔ چین نے مقامی حکومتوں کے لیئے توانائی کی کارکردگی کے نئے معیار قائم کیے، کمپنیوں پر توانائی کے معیاروں کی پابندی لازمی قراردے دی، اور دنیا کے سب سے بڑے تیز رفتار ریل نیٹ ورک کی تعمیر کا کام شروع کر دیا۔

جوناتھن لیش کہتے ہیں کہ اگر چہ امریکی کانگریس 2010 میں آب و ہوا کے بارے میں قانون منظور نہیں کر سکی لیکن کین کُن، میکسیکو میں اقوام متحدہ کی ماحول کے بارے میں سربراہ کانفرنس کے نتائج حوصلہ افزا تھے۔ یہ کانفرنس نومبر کے آخر سے دسمبر کے شروع تک جاری رہی۔ 192 ملکوں کے نمائندوں نے آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں کیوٹو پروٹوکول کی جگہ، جو 2012 میں ختم ہو جائے گا، ایک نئے عالمی معاہدے کی تیاری پر کام جاری رکھا۔

2010ء ماحولیات کے لیے کڑا سال

ایک اور واقعہ جس نے 2010 میں ہلچل مچائے رکھی، خلیج میکسیکو میں تیل کے پھیلنے کا تھا۔ اپریل میں سمندر کے نیچے ڈیپ واٹر ہورائزن نامی تیل کے کنوئیں میں دھماکہ ہوا جس میں گیارہ افراد ہلاک ہوگئے ۔ جولائی کے وسط میں تیل کے کنوئیں کو بند کرنے سے قبل، تقریباً پچاس لاکھ بیرل تیل سمندر میں پہنچ چکا تھا۔ سمندر کا یہ وہ علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ ماہی گیری ہوتی تھی۔

رواں سال کے اختتام پر امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل زوکُنت پال نے بتایا کہ 9,000 کارکن اب بھی صفائی کے کام میں مصروف ہیں اور ان کی خاص توجہ دلدلی علاقوں اور ساحلوں کی بحالی پر ہے۔ ”تیل کی بڑی مقدار ساحلوں کے تفریحی مقامات اور نیشنل پارکوں کے کناروں کے اندر دبی ہوئی ہے۔ تیل کی کچھ مقدار یا تو ہاتھوں سے نکالی جا چکی ہے یا ہم اس کے لیئے بھاری مشینیں استعمال کر رہے ہیں۔“

ماحولیات کے بعض دوسرے اہم واقعات یہ تھے کہ 2010 میں بلیو فِن ٹوناکو بین الاقوامی سطح پر تحفظ نہ مل سکا۔ اس مچھلی کا بڑی مقدار میں شکار کیا جاتا ہے اور اس کے نا پید ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ دوسری طرف، ناروے نے انڈونیشیا میں جنگلات کی حفاظت کے لیئے ایک ارب ڈالر کا عطیہ دیا، اور 2010 کے آخری دنوں میں ، جو چین میں چیتے کا سال تھا، عالمی لیڈر روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں جمع ہوئے اور انھوں نے چیتے کی نسل کو بچانے کے ایک منصوبے پر اتفاق کیا اور اس کے لیئے پیسہ دینے کا وعدہ کیا۔