عظمیٰ بخاری نے پولیس اہل کار کو تھپڑ کیوں مارا؟

عظمیٰ بخاری کے بقول اگر سروسز اسپتال نے انہیں میڈیکل سرٹیفکٹ نہ دیا تو وہ عدالت جائیں گی اور خود پر ہونے والے تشدد کا مقدمہ وزیراعظم سے لے کر وزیراعلٰی تک درج کرائیں گی۔

پاکستان کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کی رکن پنجاب اسمبلی عظمٰی بخاری کے ساتھ پولیس اہل کاروں کا ناروا سلوک سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

عظمٰی بخاری جمعے کو پارٹی کی نائب صدر مریم نواز کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر اُن سے اظہار یکجہتی کے لیے پہنچیں تو اس موقع پر ان کی پولیس اہل کاروں سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔

سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیوز میں سے ایک کے مطابق پنجاب پولیس کا ایک اہل کار پہلے عظمٰی بخاری کو روکنے کے لیے انہیں چھوتا ہے جس پر وہ سیخ پا ہو کر اسے تھپڑ رسید کرتی ہیں۔

دوسری ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ پولیس اہل کار اُنہیں احتساب عدالت کی جانب جانے کے لیے حفاظتی شیلڈ سے روکتے ہیں جبکہ ایک اور ویڈیو کلپ میں خواتین پولیس اہل کار انہیں آگے جانے نہیں دیتیں جس پر تلخ کلامی شروع ہو جاتی ہے۔

کالم نویس اور تجزیہ کار امتیاز عالم سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہتے ہیں کہ عظمٰی بخاری بی بی شہید کی پرانی جیالی ہیں جنہوں نے ہمشہ پہلی صف میں رہ کر جمہوریت کا دفاع کیا ہے۔ اب مریم نواز کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں جنہیں مرد پولیس اہل کاروں نے مارا ہے لیکن وہ مدد کے لیے کسی کو بلا نہیں سکتیں کیوں کہ وہاں ریسکیو 1122 بھی نہیں ہے۔

وزیراعلٰی پنجاب کے ترجمان شہباز گِل ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہتے ہیں عظمٰی بخاری (ن) لیگ کی گلو بٹوں میں سے ایک ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ " اِس بی بی کی زبان تو بہت ہی گندی ہے، کہاں سے سیکھی ہیں اِس نے اتنی گالم گلوچ؟ سمجھ نہیں آ رہی کیا جواب دوں، اِس کے معیار تک کیسے جائے انسان۔"

ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب شہباز گل کی ٹوئٹ کا عکس

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عظمٰی بخاری نے کہا کہ وہ مریم نواز سے اظہار یکجہتی کے لیے گئی تھیں لیکن پولیس مرد اہل کاروں نے اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔

عظمٰی بخاری نے دعوٰی کیا کہ اُن کی کمر اور بازو پر چوٹیں آئی ہیں اور انہوں نے طبی معائنہ کرالیا ہے لیکن اِس کے باوجود اُن کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سروسز اسپتال نے انہیں سادہ کاغذ تھما کر ڈسچارج کردیا تھا اور دو ہفتوں کے لیے گردن میں کالر لگانے کو کہا گیا ہے۔ ان کے بقول اگر سروسز اسپتال نے میڈیکل سرٹیفکیٹ نہ دیا تو وہ عدالت جائیں گی اور خود پر ہونے والے تشدد کا مقدمہ وزیراعظم سے لے کر وزیراعلٰی تک درج کرائیں گی۔

حکمراں جماعت پر تنقید کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی رہنما کا کہنا تھا کہ یہ ہے نیا پاکستان اور یہ ہے ریاست مدینہ کا انصاف۔

وومن پروٹیکشن اتھارٹی کی چئیر پرسن فاطمہ چدھڑ کہتی ہیں کہ عورت کوئی بھی ہو اور اُس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو, ہر شخص پر عورت کا احترام واجب ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فاطمہ چدھڑ کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی کارکن کا اپنے لیڈر کے ساتھ رشتہ ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عظمٰی بخاری کو دھکے دینا اور انہیں چھونا کسی طور بھی ٹھیک نہیں۔ اگر اُن کے پاس کوئی ویڈیو ہے اور وہ ان کے ادارے سے رابطہ کریں گی تو اُن کی درخواست پر کارروائی ہو سکتی ہے۔

بیرسٹر آفتاب مقصود کہتے ہیں کہ قانون کے مطابق کسی بھی عورت کو اُس کی مرضی کے بغیر چھونا قابل گرفت جرم ہے۔