بھارت میں کرونا وائرس کی دوسری لہر بے قابو ہو گئی ہے اور روزانہ کیسز اور اموات کے نئے ریکارڈز بن رہے ہیں۔ مریضوں کی تعداد میں حالیہ اضافے کے بعد اسپتالوں پر دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
بھارت میں مسلسل دوسرے روز کرونا وائرس کے تین لاکھ سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے تین لاکھ 32 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو اب تک دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک دن کے اندر کرونا کے کیسز کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔جمعرات کو بھی بھارت میں تین لاکھ 14 ہزار کیسز سامنے آئے تھے۔
اس سے قبل امریکہ میں رواں برس کے آغاز میں دو لاکھ 97 ہزار سے زائد کیسز ایک دن میں رپورٹ ہونے والے سب سے زیادہ کیسز تھے۔
وزارتِ صحت کے جمعے کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں وبا کے شکار مزید 2263 مریض ہلاک ہوئے ہیں جو اب تک وبا سے ہونے والی اموات کی ریکارڈ تعداد ہے۔
رواں ہفتے کے چار دنوں کے دوران بھارت میں 10 لاکھ کیس رپورٹ ہوئے جب کہ اس سے قبل یہی تعداد چھ روز میں سامنے آئی تھی۔ ملک میں مجموعی کیسز کی تعداد ایک کروڑ 61 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور ایک لاکھ 84 ہزار سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
وائس آف آمریکہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں کرونا وبا کی حالیہ صورت حال بدترین صورت حال اختیار کر چکی ہے، اسپتالوں کے باہر لاشوں اور مریضوں کو لانے والی ایمبولینسز کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
مردہ خانوں میں لاشوں کے ڈھیر ہیں اور بعض اسپتالوں میں ایک ایک بستر پر دو دو مریض بھی موجود ہیں۔ جب کہ اسپتالوں کی گزر گاہوں میں بھی بستر لگا دیے گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اسپتالوں میں بستروں، ضروری ادویات اور آکسیجن کی طلب بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ مریضوں کو دی جانے والی ادویات کی کمی کے باعث ان کی بلیک مارکیٹنگ بھی شروع ہو گئی ہے۔
کرونا وائرس کی بگڑتی صورتِ حال کے بعد وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جمعے کو مغربی بنگال کے انتخابی دورے کو ملتوی کر دیا ہے۔ ان کے بقول وہ جمعے کو کرونا کی صورتِ حال پر اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔
کیسز میں اضافہ کب شروع ہوا؟
گزشتہ برس جب ستمبر میں بھارت کے یومیہ کیسز میں کمی آنا شروع ہوئی تو انتظامی سطح پر یہ سمجھا جانے لگا کہ شاید بدترین وقت گزر چکا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق گزشتہ برس ستمبر کے بعد 30 ہفتوں تک بھارت میں کیسز میں کم آتی رہی لیکن فروری 2021 کے وسط میں ایک مرتبہ پھر کیسز میں اضافہ شروع ہوا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دوران بھارت نے اپنے صحت کے نظام کو مضبوط کرنے کا موقع ضائع کر دیا تھا۔
’اے پی‘ سے بات کرتے ہوئے بھارت کی پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن کے صدر سریناتھ ریڈی کا کہنا تھا کہ ماہرین کی جانب سے خبردار کرنے اور احتیاطی اقدامات تجویز کرنے کے باوجود حکومت نے وبا کے تیزی سے پھیلاؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری نہیں کی۔
SEE ALSO: بھارت: یومیہ کرونا کیسز کا نیا عالمی ریکارڈ، اسپتالوں میں بستروں اور آکسیجن کی قلتناقدین کا کہنا ہے کہ کرونا کے کیسز میں اضافے کے باوجود حکومت نے مذہبی تہواروں اور انتخابی مہم کے لیے ہونے والے اجتماعات کو روکنے کا فیصلہ نہیں کیا جس کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آئی۔
بھارت میں چھ اپریل کو ہر ایک لاکھ میں سے کرونا کے چھ اعشاریہ سات پانچ فی صد کی شرح سے کیسز سامنے آرہے تھے جب کہ 20 اپریل کو یہ شرح فی ایک لاکھ میں 18 فی صد کیسز سے تجاوز کر گئی تھی۔
بھارت میں کرونا کی ایک نئی قسم بھی سامنے آ چکی ہے جسے کیسز میں اضافے کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت کا نظامِ صحت مشکلات کا شکار کیوں؟
دنیا کے بڑے ممالک کے مقابلے میں بھارت اپنی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا بہت معمولی حصہ صحت پر خرچ کرتا ہے۔
گزشتہ برس جب بھارت میں کرونا وائرس کی لہر میں تیزی آنا شروع ہوئی تو حکومت نے سخت پابندیوں کے ساتھ ایک ماہ کا لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔
اس سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم ’اے پی‘ کے مطابق اس دوران بھارت کو اپنے صحت کے نظام کو کرونا کی روک تھام کے لیے تیاری کی مہلت بھی ملی تھی۔ لیکن ماہرین کے مطابق حکومت نے وبا کے حوالے سے دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
دوسری جانب حکومت کی جانب سے عوام کو کرونا احتیاط پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کی جا رہی ہے۔
’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ‘ سے تعلق رکھنے والی وبائی امراض کی ماہر ونیتا بال کا کہنا ہے کہ موجودہ اسپتالوں کی گنجائش بڑھانے یا وبائی امراض کے مزید ماہرین کی خدمات حاصل کرنے جسیی تجاویز نظر انداز کر دی گئیں۔ اب حکومت دوبارہ وہی ہنگامی اقدامات کرنے کی کوشش میں ہے جن کی وجہ سے پہلے کیسز کی تعداد پر قابو پالیا گیا تھا۔
آکسیجن کی قلت
’اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک سال قبل بھارت نے طبی مقاصد کے لیے درکار آکسیجن حاصل کرنے کے لیے بہتر حکمتِ عملی اختیار کی تھی۔ لیکن حالات میں بہتری کے بعد آکسیجن تیار کرنے والوں نے دوبار صںعتوں کو آکسیجن فراہم کرنا شروع کر دی اور اب متعدد بھارتی ریاستوں کو اس کی اتنی شدید قلت کا سامنا ہے کہ وزارتِ صحت نے اسپتالوں پر آکسیجن کی متعین مقدار استعمال کرنے یا راشننگ کے لیے زور دیا ہے۔
حکومت نے اکتوبر میں طبی استعمال کے آکسیجن کی تیاری لیے نئے پلانٹس لگانا شروع کیے تھے لیکن چھ ماہ بعد یہ واضح نہیں کہ ان سے پیداوار شروع ہوئی یا نہیں۔ جب کہ وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ ان پلانٹس کی جلد تکمیل کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
’اے پی‘ کے مطابق پورے ملک میں 'ہاٹ اسپاٹس' پر ضرورت پوری کرنے کے لیے سلینڈرز کی ترسیل کی جارہی ہے۔ تاہم اس میں مختلف ریاستوں کی جانب یہ الزامات بھی سامنے آرہے ہیں کہ ان کے لیے بھیجے گئے آکسیجن کو دیگر ریاستیں اپنے استعمال میں لا رہی ہیں۔
اب کیا ہوگا؟
ماہرین کا کہنا ہے جب تک بھارت میں آبادی کے اتنے حصے کو ویکسین نہیں لگا دی جاتی جس سے نئے مریضوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہو جائے اس وقت تک ملک کے صحت کا نظام مشکلات کا شکار رہے گا۔
بھارت دنیا کے ویکسین تیار کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے لیکن مارچ میں ویکسین کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کے باوجود اس حوالے سے سوالات پائے جاتے ہیں کہ ویکسین تیار کرنے والی کمپنیاں آبادی کی ضرورت کے مطابق اس کی تیاری مکمل کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں یا نہیں؟
ڈاکٹر سریناتھ ریڈی کے مطابق وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں ویکسین کے مددگار ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس کی خوراکیں کتنی تیزی سے فراہم کی جاتی ہیں اور کس تعداد میں دستیاب ہوتی ہیں۔
بھارت کی کئی ریاستوں کا کہنا ہے کہ انہیں ویکسین کی قلت کا سامنا ہے جب کہ مرکزی حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔
SEE ALSO: بھارت: گھر گھر کرونا وائرس کے وار، دہلی میں خوف اور وحشت کا راجبھارت نے گزشتہ ہفتے عالمی ادارۂ صحت، امریکہ، یورپ، برطانیہ یا جاپان کی منظورہ شدہ ویکسینز استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔
حکومت نے پیر کو 45 برس تک کی عمر کے افراد کو بھی ویکسین لگانے کا اعلان کیا تھا۔ ان افراد کی تعداد 90 کروڑ بنتی ہے جو پوری یورپی یونین اور امریکہ کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔
بھارت میں یومیہ لاکھوں ویکسین لگائی جا رہی ہیں اس کے باوجود اب تک اس کی مجموعی آبادی کے دس فی صد کو بھی ویکسین نہیں لگائی جا سکی ہے۔
ڈاکٹر سریناتھ ریڈی کا کہنا ہے کہ کئی ریاستوں کو طویل مدت کا لاک ڈاؤن نافذ کرنا ہوگا اور انفرادی سطح پر بھی لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔