عام خیال ہے کہ کرونا وائرس کی وبا ماحول کے لیے اچھی ہے اور انسانوں کے گھر بیٹھنے سے فطرت کے زخم بھر رہے ہیں۔ عالمگیر المیے کے دوران کچھ لوگوں کو اس خیال سے تسلی ملی ہے۔ لیکن تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ حقائق ان توقعات کی تصدیق نہیں کرتے۔
ابتدائی طور پر نظر آنے والے فوائد دل خوش کن تھے۔ یعنی گاڑیوں اور طیاروں کے خاموش ہونے سے پرندوں کے چہچاہٹ کا سنائی دینا اور شفاف ہوا۔ لیکن یہ سب عارضی تھا۔ لاک ڈاؤنز میں نرمی کے ساتھ فائدے تحلیل ہونا شروع ہو گئے۔
اب کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں زیادہ ٹریفک، زیادہ آلودگی اور زیادہ تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فی الحال یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ مستقبل کیسا ہو گا لیکن دنیا بھر میں تشویش ناک علامات بڑھ رہی ہیں۔
یہ تحقیق برطانیہ میں ایسٹ اینگلیا یونیورسٹی کے ماہرین نے کی ہے اور اس بارے میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی نے مضمون شائع کیا ہے۔
اس کے مطابق اپریل میں جب دنیا بھر میں لاک ڈاؤنز کیے گئے تو کاربن کے یومیہ اخراج میں گزشتہ سال کی نسبت 17 فیصد کمی ہو گئی تھی۔ لیکن گزشتہ ہفتے نئے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ وہ کمی اب صرف پانچ فیصد رہ گئی ہے حالانکہ ابھی مکمل سرگرمیاں بحال نہیں ہوئیں۔
تحقیق کے نتائج لکھنے والی پروفیسر کورین لے کورے کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس بدستور وہی کاریں ہیں، وہی سڑکیں، وہی صنعتیں اور وہی گھر۔ لہذا جیسے ہی پابندیاں ہٹائی جائیں گی، ہم وہیں پہنچ جائیں گے جہاں پہلے تھے۔
چین پہلا ملک تھا جو کرونا وائرس سے متاثر ہوا اور وہیں سب سے پہلے لاک ڈاؤن کی پابندیاں ختم ہوئیں۔ اس کے تجربے کو دوسروں کے لیے بطور مثال دیکھا جاسکتا ہے۔ چین میں فروری اور مارچ میں صنعتیں اور ٹرانسپورٹیشن بند ہونے سے ہوا کا معیار ڈرامائی طور پر بہتر ہوا تھا لیکن اب وہ بہتری غائب ہو چکی ہے۔
کارخانے ضائع ہو جانے والے وقت کا خسارہ پورا کرنے کے لیے زیادہ کام کر رہے ہیں اس لیے مئی میں آلودگی اسی درجے پر پہنچ گئی تھی جہاں وبا سے پہلے تھی۔ بلکہ بعض مقامات پر اس سے بھی زیادہ خراب صورت حال تھی۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چین میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے نئے کارخانوں کے قیام کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اچانک بہت سے اجازت نامے جاری کر دیے گئے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ پاور پلانٹ تعمیر کیے گئے تو مستقبل میں انسانی صحت اور ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
وبا کی وجہ سے معاشی نقصانات سے سب پریشان ہیں اور فضائی اداروں کے علاوہ ایندھن، پلاسٹک اور گاڑیوں صنعتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی حکومتیں، خاص طور پر امریکی انتظامیہ ایسی کمپنیوں کو رقوم، ضابطے کی کارروائیوں میں نرمی اور دوسری سہولتیں دی رہی ہے۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ ان سہولتوں کی وجہ سے آلودگی پھیلانے والے اس بحران سے نکل آئیں گے اور ماضی سے زیادہ نفع کمائیں گے۔
امریکن پیٹرولیم انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ تیل اور گیس کی کمپنیاں خصوصی فائدے طلب نہیں کر رہیں بلکہ انہی مواقع سے فائدہ اٹھا رہی ہیں جن کا مقصد تمام شعبوں کی مدد کرنا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ صرف رقوم فراہم نہیں کر رہی بلکہ اس نےفضائی اور آبی آلودگی سے متعلق قواعد اور توانائی کے منصوبے روکنے کی ریاستی اہلیت کو عملاً ناکارہ بنا دیا ہے۔ اس نے کانوں، پائپ لائنوں، شاہراہوں اور دوسرے منصوبوں کے لیے ماحولیاتی جائزے اور عوامی آرا کی لازمی شرط کو معطل کر دیا ہے۔
ایک اور پریشان کن مسئلہ ٹریفک کا ہے۔ چونکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سماجی فاصلے کو یقینی بنانا مشکل ہے، اس لیے امکان ہے کہ بہت سے مسافر وائرس سے بچنے کے لیے ان میں سفر نہیں کریں گے۔ اس طرح زیادہ کاریں سڑکوں پر نظر آئیں گی۔ چین میں ٹریفک کا دباؤ وبا سے پہلے کے درجے پر پہنچ چکا ہے۔
ادھر برازیل میں بحران کی شدت کے باعث حکومت کا دھیان بٹا ہوا ہے اور ایمیزون کا جنگل کاٹنے والوں کو کوئی رکاوٹ درپیش نہیں۔ سیٹلائٹ ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ مارچ کے مقابلے میں اپریل میں 64 فیصد زیادہ زمین صاف کی گئی۔ اس سے پہلے کے دس سال میں سب سے زیادہ درخت 2019 میں کاٹے گئے تھے۔
زمین صاف کرنے کے بعد سبزہ جلایا بھی جا رہا ہے جس سے دھواں پیدا ہو رہا ہے۔ اس سے نہ صرف ماحول کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ فضا آلودہ ہونے سے وائرس کے متاثرین کو سانس لینے میں مزید پریشانی ہو رہی ہے۔
یورپ بھی کرونا وائرس کے بدترین متاثرین میں شامل ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ کرونا وائرس بحران کی وجہ سے یورپی حکومتوں کی توجہ کاروبار کو بحال کرنے اور معیشت کے نقصانات کم کرنے پر رہے گی۔ اس لیے ان کا ماحولیاتی تبدیلی کو روکنا اور اس کے لیے رقوم مختص کرنا ثانوی اہمیت کا حامل ہو گا۔ انجام کار اس طرح بھی ماحول کو نقصان ہو گا۔