افغانستان کے دارالحکومت کابل کے انتہائی حساس علاقے میں بم دھماکے کا نشانہ جامع مسجد وزیر اکبر خان کے خطیب مولوی ڈاکٹر محمد ایاز خان نیازی ہی تھے۔
مولوی ڈاکٹر محمد ایاز خان نیازی کا شمار افغانستان کے مشہور مذہبی اسکالرز میں ہوتا تھا۔ انہوں نے پاکستان کے شہر پشاور کے ایک مدرسے اور مصر میں جامعۃ الازھر سے تعلیم حاصل کی تھی۔
افغانستان کے شمالی صوبے بدخشاں سے تعلق رکھنے والا 64 سالہ محمد ایاز خان نیازی کا گھرانہ بھی ان خاندانوں میں سے تھا جنہوں نے 70 کی دہائی میں افغانستان سے پشاور ہجرت کی تھی۔
پاکستان ہجرت کرنے کے بعد محمد ایاز خان نیازی کے والد اور دیگر قریبی رشتے دار سابق افغان صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کی 'جمعیت اسلامی افغانستان' سے منسلک ہو گئے تھے۔
'جمعیت اسلامی افغانستان' نہ صرف افغان مجاہدین کے اتحاد میں شامل تھی بلکہ یہ جماعت کسی بھی طور پر سابقہ سوویت یونین کے زیر اثر سوشلسٹ نظریات کی حامل 'پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان' کے ساتھ افہام و تفہیم پر تیار تھی۔ مقبول افغان جنگجو کمانڈر احمد شاہ مسعود بھی جمعیت اسلامی افغانستان سے منسلک تھے۔
پشاور منتقل ہونے کے بعد محمد ایاز خان نیازی نے شہر کے معروف کاروباری علاقے 'نمک منڈی' کی مدنی مسجد کے احاطے میں قائم دارالقراء میں داخلہ لیا۔ یہ ادارہ کئی دہائیوں سے قاری فیاض الرحمٰن علوی کی نگرانی میں درس و تدریس سرانجام دے رہا ہے۔
قاری فیاض الرحمٰن علوی 2002 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے ٹکٹ پر پشاور سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ تاہم سیاست میں دلچسپی نہ ہونے کے باعث اُنہوں نے نہ صرف 2008 کے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا بلکہ سیاست کے بجائے درس و تدریس پر توجہ مرکوز کر دی۔
قاری فیاض الرحمٰن کے صاحبزادے اور دارالقراء کے نگران قاری احمد علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ڈاکٹر محمد ایاز خان نیازی نے 70 کی دہائی میں اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی تھی۔ اسی ادارے سے انہوں نے شہادت عالیہ کی سند حاصل کرنے کے بعد چند برس مدرس کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔
ان کے بقول بعد ازاں ان کو مصر کی جامعۃ الازھر میں داخلہ ملا جہاں سے انہوں نے اسلامی معیشت میں پی ایچ ڈی کیا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہوں جامعۃ الازھر میں اُستاد کی حیثیت سے فرائض بھی انجام دیے۔
قاری احمد علی نے بتایا کہ ڈاکٹر محمد ایاز نیازی مصر سے واپسی پر کچھ ماہ تک دارالقراء پشاور میں اُستاد رہے۔ بعد ازاں افغانستان منتقل ہو گئے اور کابل یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی شریعت میں بحیثیت پروفیسر تدریس شروع کی جب کہ دارالحکومت کے حساس علاقے کی مسجد وزیر اکبر خان میں ان کا بحیثیت خطیب بھی تقرر ہوا۔
خیال رہے کہ مولوی ڈاکٹر محمد ایاز خان نیازی اس وقت افغانستان واپس گئے تھے جب وہاں پر پروفیسر برہان الدین ربانی کی حکومت تھی تاہم وہ طالبان کے دور میں بھی اپنے عہدوں پر تعینات رہے تھے۔
قاری احمد علی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ایاز خان نیازی انتہائی بے ضرر انسان تھے۔ اُنہوں نے عملی زندگی میں سیاست پر درس و تدریس کو ترجیح دی۔ ان پر ہونے والے حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
کابل میں توہین مذہب کے نام پر 2015 میں قتل ہونی والی فرخندہ کےخلاف بیان دینے پر مولوی ڈاکٹر ایاز خان نیازی پر شدید تنقید کی گئی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنے بیان پر معذرت بھی کی تھی۔
ڈاکٹر ایاز خان نیازی کی معذرت کے بعد بعض مذہبی حلقوں نے بھی ان کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
پشاور کی درس گاہ دارالقراء کے نگران قاری احمد علی کے علاوہ پاکستان کی کسی بھی مذہبی اور سیاسی جماعت یا شخصیت نے ان پر ہونے والے بم حملے کی مذمت نہیں کی۔
افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران ڈاکٹر ایاز خان نیازی سابق صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کے جمعیت اسلامی افغانستان سے منسلک رہے گو کہ جمعیت اسلامی کا شمار بھی سخت گیر جماعتوں میں ہوتا تھا لیکن ڈاکٹر ایاز خان نیازی انتہائی روشن خیال عالم مانے جاتے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے معاون خصوصی شہزادہ مسعود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ڈاکٹر ایاز خان نیازی تمام مکاتب فکر کے علما اور سیاسی رہنماؤں میں مقبول تھے۔
ان کے بقول ایاز خان نیازی نے کابل یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر فرائض انجام دیے تھے تاہم طالبان کے دور میں آخری ایام میں انہیں مسجد وزیر اکبر خان میں خطیب تعینات کیا گیا تھا۔
شہزادہ مسعود نے بتایا کہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد انہوں نے افغانستان میں صلح اور قیامِ امن میں کردار ادا کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ نہ صرف افغان رہنماؤں بلکہ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے اختلافات کے بھی خلاف تھے۔
ان کے بقول ڈاکٹر ایاز خان نیازی افغانستان کے عام لوگوں، سیکیورٹی فورسز اور املاک پر امریکی افواج کی بمباری کے بھی شدید خلاف تھے۔ وہ افغانستان کے سیاسی معاملات میں بیرونی مداخلت کے بھی ناقد تھے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ڈاکٹر ایاز خان نیازی پر ہونے والے بم حملے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کا کمیشن بنانے کی ہدایت دی ہے۔
افغان طالبان نے مولوی ڈاکٹر محمد ایاز خان نیازی پر ہونے والے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جب کہ اس بم دھماکے کی مذمت بھی کی ہے۔
تاہم افغانستان کے نائب صدر اول امر اللہ صالح نے طالبان کو ہی اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔