ممبئی حملوں کے مرکزی ملزم ذکی الرحمٰن لکھوی کی گرفتاری کتنی اہم؟

ذکی الرحمٰن لکھوی (فائل فوٹو)

محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پنجاب کی جانب سے کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ کے کمانڈر اور ممبئی حملہ کیس کے مرکزی ملزم ذکی الرحمٰن لکھوی کی گرفتاری کو اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔

ہفتے کو لاہور سے گرفتار کیے جانے والے لکھوی کی گرفتاری کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ اُنہیں کسی بیرونی دباؤ پر گرفتار کیا گیا یا یہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کے سلسلے کی ہی کڑی ہے جس میں حالیہ عرصے میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

سی ٹی ڈی کے مطابق لکھوی پر الزام ہے کہ وہ لاہور میں قائم ایک ڈسپنسری سے رقوم اکھٹی کر کے ذاتی اخراجات کے علاوہ اسے دہشت گردی کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔

اُن کے خلاف کیس کی سماعت لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں ہو گی۔

ذکی الرحمٰن لکھوی کی گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے کا خواہاں ہے۔

سینئر تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں موجودگی پاکستان کے لیے تشویش ناک ہے اور اس سے نکلنے کا انحصار ایسی کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی پر ہے جو اب بھی چندہ جمع کرنے میں سرگرم ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

'جماعت الدعوة جیسی تنظیمیں پاک امریکہ تعلقات کی خرابی کی بڑی وجہ'

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو بھی گرفتار کیا گیا اور انہیں مختلف مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔

اُن کے بقول اس سے قبل یا تو حافظ سعید کو نظر بند کیا جاتا تھا یہ پھر کچھ عرصے کے لیے تحویل میں لے کر بعد میں رہا کر دیا جاتا تھا۔

زاہد حسین کے بقول اب نہ صرف کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں بلکہ دیگر کارکنوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔

بھارت کی جانب سے بھی پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ لکھوی کے خلاف کارروائی کرے۔ بھارت ماضی میں لکھوی کے خلاف کارروائی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتا رہا ہے۔

زاہد حسین کے مطابق بھارت سے بین الاقوامی برادری کا دباؤ زیادہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں میں پاکستان پر ہمیشہ یہی اعتراضات لگتے ہیں کہ ابھی تک یہاں ایسی کالعدم تنظیمیں فعال ہیں جو چندہ جمع کر رہی ہیں۔

خیال رہے کہ نومبر 2008 میں ممبئی حملہ کیس میں بھارت نے لشکرِ طیبہ کے دیگر رہنماؤں سمیت ذکی الرحمٰن لکھوی پر بھی حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگایا تھا۔

مذکورہ حملے میں 160 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد ذکی الرحمٰن لکھوی کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

چھ سال بعد دسمبر 2014 میں ذکی الرحمٰن لکھوی کی ضمانت پر رہائی ہوئی تھی۔

اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے ذکی الرحمٰن لکھوی کا نام دسمبر 2008 میں لشکرِ طیبہ اور القاعدہ سے تعلق کی بنیاد پر دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

'پاکستان حافظ سعید کو اثاثہ سمجھتا ہے'

لکھوی لشکرِ طیبہ کے چیف آپریشنز کمانڈر رہنے کے علاوہ چیچنیا، بوسنیا، عراق اور افغانستان سمیت دیگر ممالک میں عسکریت پسند سرگرمیوں میں حصہ لے چکے ہیں۔

ایسے تمام افراد کے اثاثے منجمد کر دیے جاتے ہیں اور ان پر سفری پابندی کے ساتھ ساتھ اسلحے کے حصول پر بھی پابندی عائد ہوتی ہے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) پاکستان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ آزادانہ طور پر گھومنے والے دہشت گردوں کے خلاف اقدامات کرے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک نے بتایا کہ بد قسمتی سے پاکستان کی نیت پر ہمیشہ شک کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایف اے ٹی ایف کا مسئلہ نہ ہوتا تو پھر اسے کسی دوسرے تناظر میں دیکھا جاتا۔

آصف یاسین ملک کا مزید کہنا تھا کہ دراصل اس قسم کے افراد کے خلاف عدالتوں میں لوگ گواہی دینے سے کتراتے ہیں جس کی وجہ سے پراسیکیوشن کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قطع نظر کہ عدالت میں کیا مشکلات پیش آتی ہیں، حکومت نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے اور اسے سراہنا چاہیے۔

سابق سیکریٹری دفاع نے واضح کیا کہ جب پاکستان، افغانستان اور بھارت پر زور دیتا ہے کہ ان کی سر زمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہ ہو تو اس کے لیے بھی ایسے اقدامات کرنا ناگزیر تھے جس سے دنیا کو پاکستان کی سنجیدگی پر کوئی شک نہ ہو۔

تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق پاکستان پر دباؤ کی نوعیت بہت مختلف ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا بلیک لسٹ میں جانا کافی خطرناک ہو سکتا ہے اور گرے لسٹ میں بھی مستقل رہنے کے باعث عالمی پابندیوں کا خدشہ ہوتا ہے۔

اُن کے بقول اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ملزمان کے ٹرائل کے دوران کیا ہوتا ہے، بلاشبہ یہ حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے۔