’پرینکسٹر آرٹسٹ‘ جن کا ایک کیلے سے بنایا گیا فن پارہ 62 لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا

FRANCE-CULTURE/

  • دیوار پر چپکا کیلا ماورزیو کتلان کا فن پارہ تھا جس کی قیمت 62 لاکھ ڈالر سے زائد لگی ہے۔
  • کتلان نے آرٹ کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی اور فنی کریئر کا آغاز 30 سال کی عمر کے بعد کیا۔
  • کتلان کے فن کو پوسٹ ماڈرنزم کا فن کار شمار کیا جاتا ہے۔
  • وہ مجسموں اور ٹیکسی ڈرمی کیے گئے جانوروں کی مدد سے بھی فن پارے تیار کرتے ہیں۔

ویب ڈیسک __نیویارک میں 62 لاکھ ڈالر میں فروخت ہونے والے کیلے کا بہت چرچہ ہے جسے ایک آرٹ کی ایک نمائش میں فن پارے کے طور پیش کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے پیچھے ایک ایسے شخص کا دماغ ہے جو دنیا کو اس سے پہلے بھی اپنے آئیڈیاز سے حیران و پریشان کر چکا ہے۔

لاکھوں ڈالر میں دیوار سے چپکا کیلا در اصل ایک پھل کے طور پر فروخت نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی بولی ’کامیڈین‘ نامی آرٹ ورک کے طور پر لگائی گئی تھی جسے ایک غیر روایتی فن کار ماؤرزیو کتلان نے تیار کیا تھا۔

کتلان کو اپنے منفرد انداز اور مزاح کے استعمال کی وجہ سے آرٹ جوکر اور آرٹ پرینکسٹر بھی کہا جاتا ہے یعنی ایسا فن کار جو اپنے آئیڈیا کی قوت سے کسی بھی چیز کو آرٹ کا نمونہ بنا بھی سکتا ہے اور لوگوں سے یہ بات منوا بھی سکتا ہے۔

پہلی مرتبہ 2019 میں آرٹ باسل میامی بیچ فیئر میں کتلان کے آرٹ ورک ’کامیڈین‘ کی نمائش ہوئی تھی جس کے بعد کامیڈین نامی یہ آرٹ ورک موضوعِ بحث رہا تھا۔

اس کے بارے میں کئی لوگوں کا پہلا ردِ عمل تھا کہ شاید یہ کوئی مذاق ہے؟ یا فن کی موجودہ حالت پر کوئی تبصرہ کیا گیا ہے۔ ایک فن کار نے تو دیوار پر چپکا کیلا اتار کر کھا بھی لیا تھا۔

اب تک اس کے تین ایڈیشن ایک لاکھ 20 ڈالر سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر تک میں فروخت ہو چکے ہیں جب کہ تیسرا ایڈیشن نیویارک میں 62 لاکھ ڈالر سے زائد میں فروخت ہوا ہے۔

فروخت کے بعد بہت سے ذہنوں میں یہ سوال آیا ہے کہ دیوار پر کیلا چپکا کر اس فن پارے کا نام دینے کے بعد اس کی اتنی بھاری قیمت کیسے وصول کی جاسکتی ہے۔

SEE ALSO: دیوار پر ٹیپ سے چپکے کیلے کی قیمت 10 لاکھ ڈالر کیوں؟

اس بارے میں فن پارے کی بولی کرانے والی کمپنی 'سوتھبائی' کے مطابق اس فن پارے میں خریدار کیلے کی قیمت ادا نہیں کرتا بلکہ یہ تو اس آئیڈیا کو استعمال کرنے کے تصدیق نامے کا معاوضہ ہے۔ اس سے بڑھ کر اس سے کتلان کا نام جڑنا ہی اس کی اصل قدر و قیمت ہے۔

ماؤرزیو کتلان کے نزدیک ان کے لیے بھی آرٹ کی قدر و قیمت یا ویلیو کا سوال بہت پیچیدہ ہے۔ لیکن اس بارے میں وہ ایک دل چسپ خیال ظاہر کرتے ہیں جو ان کے فن پاروں پر بھی پورا آتا ہے۔

آرٹ میگزین میٹل سے بات کرتے ہوئے کتلان نے ایک بار کہا تھا کہ ان کے لیے فن کی قدر سے زیادہ اس کا متعلق اور ریلیونٹ ہونا زیادہ اہم ہے۔

اپنے منفرد آئیڈیاز سے دنیا کو متوجہ کرنے والے اس فن کار کی فنی زندگی کا سفر بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔

فن کی تربیت کے بغیر فنکار

کتلان 1960 میں اٹلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے باقاعدہ کسی فن کی تربیت حاصل نہیں کی اور 1980 کی دہائی میں ایک کارپینٹر کے طور پر کریئر کا آغاز کیا۔ اپنی عمر کی تیسری دہائی میں کتلان آرٹ کی جانب آ گئے۔

کتلان نے اپنے کریئر کا آغاز کونسپٹ یا وژول آرٹسٹ کے طور پر کیا جو اپنے آئیڈیاز کو اشیا اور کرداروں کے ذریعے فن پارے کی شکل دیتے ہیں۔ کونسپٹ آرٹسٹ فلموں، ویڈیو گیمز، اینی میشن اور ٹیلی وژن شوز کی پیش کش کے لیے بھی آئیڈیاز دیتے ہیں۔

ابتدا ہی سے اپنے فن پاروں میں طنز اور مزاح کی آمیزش سے کتلان کے فن پارے فوری توجہ حاصل کرنے لگے۔ وہ اپنے زیادہ تر فن پارے مجسموں اور عام اشیا سے تیار کرتے ہیں۔

کتلان کا شمار پوسٹ مارڈرن آرٹ کے فن کاروں میں ہوتا ہے اور فن کے اسی تصور کی جھلک ان کے آرٹ کے نمونوں میں نظر آتی ہے۔

پوسٹ ماڈرن یا ما بعد جدیدیت آرٹ 1950 کی دہائی میں شروع ہونے والی تحریک کا نتیجہ ہے۔ اسے جدیدیت یا ماڈرنزم کی تحریک کا ردِ عمل قرار دیا جاتا ہے۔

ماڈرنزم آئیڈیلزم کے اصولوں پر مبنی تھا اور اس میں مذہب یا سائنس کے ذریعے متعین کردہ اصولوں کی بنیاد پر حقیقت کیا ہے؟ کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

لیکن مابعد جدیدیت نے طے شدہ اصولوں، روایات، فنی تصورات اور تیکنیک سبھی پر سوال کھڑے کردیے۔ پوسٹ ماڈرنزم نے اس تصور ہی کو چیلنج کردیا کہ کوئی کائناتی سچائی یا حقیقت بھی ہوتی ہے۔

اس آرٹ میں ذاتی تجربات اور ان تجربات سے اخذ کیے گئے معنی طے شدہ تصوراتی اصولوں سے زیادہ ٹھوس حیثیت رکھتے ہیں۔

آرٹ انسٹی ٹیوٹ ’ٹیٹ‘ کے مطابق ماڈرنزم میں سادگی اور بغیر کسی ابہام کے اپنا پیغام پہنچانے پر زور دیا جاتا ہے جب کہ پوسٹ ماڈرنزم میں پیچیدہ اور کئی بار متضاد معنوں کے ذریعے ابلاغ کیا جاتا ہے۔

کتلان کے آرٹ میں اسی نظریے کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے اپنے مجسموں پر مبنی فن پارے بھی بنائے ہیں۔ انہوں ںے ’منی می‘ اور ‘وی‘ کے نام سے ایسے فن پارے بنائے جس میں ان کا اپنا مجسمہ کبھی کسی کتب خانے اور کبھی زمین سے جھانکتا ہوا دکھایا گیا ہے۔

ماوٗرزیو کتلان اپنے فن پاروں میں ٹیکسی ڈرمی جانوروں کو بھی استعمال کیا ہے۔

کتلان نے 2012 میں ٹیکسی ڈرمی کی گئی ایک گلہری کو کرسی اور ٹیبل پر اس طرح بیٹھا ہوا دکھایا کہ اس کی ایک جانب ریوالور گری ہوئی ہے اور اس کا سر دوسری جانب ٹیبل پر ڈھلک گیا ہے۔ یہ بظاہر ایک خودکشی کا منظر لگتا ہے۔

انہوں ںے ایسا فن پارہ بھی بنایا جس میں گھوڑوں کو دیواریوں پر لٹکا ہوا دکھایا گیا ہے اور ان کے منہ دیوار کے اندر غائب ہیں۔

شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے کے محاورے کو نئے معنی دینے کے لیے کتلان نے ٹیکسی ڈرمی کیے گئے شتر مرغ کو ایک ماربل کے فرش میں سر دبائے دکھایا ہے۔

کتلان کی تنقیدی نگاہوں سے کوئی محفوظ نہیں ہے اور انہوں نے کئی تاریخی شخصیات کو بھی آرٹ ورک کا حصہ بنایا ہے۔

انہوں نے 1999 میں پوپ جان پال دوم کے مومی مجسمے کو اس طرح دکھایا تھا کہ وہ آسمان سے گرنے والے شہابیے کے ٹکرانے سے زمین پر دراز ہیں۔

سال 2007 میں کتلان کے بنائے گئے ایک مجسمے میں جرمنی کے ڈکٹیٹر اڈولف ہٹلر کو گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا دکھایا ہے اور اسے ’اِن ہم‘ کا نام دیا ہے۔

کتلان کے ابتدائی فن پارے خریدنے والی اٹلی کی آرٹ کلیکٹر پیٹریزیا ساندریتو ری بودینگو کا نے ایک بار تبصرہ کیا تھا کہ کتلان ایک ایسے فن کار ہیں جو کچھ کہے بغیر ہی کہنے کا فن جانتے ہیں۔

ان کے بقول وہ اپنے فن کے ذریعے اہم سماجی اور سیاسی موضوعات پر سوچنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے فن پارے محض دیواروں کی آرائش کے لیے نہیں ہے۔

اپنے فن میں مزاح کے استعمال پر کتلان کا کہنا ہے کہ مزاح بھی آرٹ کی طرح ہوتا ہے کیوں کہ دونوں کا مقصد ایک ہے کہ کسی بات پر کم از کم دو بار تو غور کریں۔