رسائی کے لنکس

گوتم اڈانی پر امریکہ میں فردِ جرم؛ 'یہ کارپوریٹ ورلڈ کے لیے بری خبر ہے'


  • قائدِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی نے ایک نیوز کانفرنس کر کے کہا کہ انھیں حیرت ہے کہ گوتم اڈانی آزاد گھوم رہے ہیں۔
  • سینئر کانگریس رہنما جے رام رمیش نے اڈانی گروپ کے لین دین کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
  • اڈانی گروپ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
  • ماہرینِ معیشت اور اقتصادی تجزیہ کاروں نے اسے بھارتی صنعت و تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے بری خبر قرار دیا ہے۔

نئی دہلی -- بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ارب پتی تاجر گوتم اڈانی کے خلاف امریکی عدالت میں سرمایہ کاروں کے ساتھ دھوکہ دہی کے الزام کے بعد تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے اُن کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

اڈانی گروپ نے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

قائدِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی نے ایک نیوز کانفرنس کر کے کہا کہ انھیں حیرت ہے کہ گوتم اڈانی آزاد گھوم رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایک وزیرِ اعلیٰ 15 کروڑ روپے کی بدعنوانی کے الزام میں جیل چلا جاتا ہے۔ لیکن اڈانی دو ہزار کروڑ روپے کی بدعنوانی کرتے ہیں اور آزاد ہیں۔

انھوں نے امریکی عدالت میں دائر کیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کی باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔

سینئر کانگریس رہنما جے رام رمیش نے اڈانی گروپ کے لین دین کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور وزیرِ اعظم اور اڈانی میں مبینہ ساز باز کے الزام کا اعادہ کرتے ہوئے وزیرِ اعظم پر تنقید کی۔

سینئر کانگریس رہنما پون کھیڑا نے اڈانی گروپ پر عائد الزامات کو بھارتی سرمایہ کاروں کے ساتھ دھوکہ سے تعبیر کیا۔

انھوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ مارچ 2023 میں گوتم اڈانی کے بھتیجے ساگر اڈانی کے دفاتر پر امریکی تحقیقاتی ادارے ’فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن‘ (ایف بی آئی) نے چھاپہ مارا تھا اور الیکٹرانک آلات ضبط کیے تھے۔ ان کے مطابق بھارت کی اعلیٰ تحقیقاتی ایجنسی ’سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن‘ (سی بی آئی) اڈانی کو بچا رہی ہے۔

عام آدمی پارٹی کے رکنِ پارلیمان سنجے سنگھ نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ جب کہ شیو سینا (اودھو ٹھاکرے گروپ) کی رکنِ پارلیمان پرینکا چترویدی نے امریکی عدالت کی کارروائی کے تناظر میں بھارتی تحقیقاتی اداروں پر تنقید کی۔

اڈانی گروپ کی تردید

ادھر اڈانی گروپ نے ایک بیان جاری کر کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا اور کہا کہ وہ ایمان داری کے اعلیٰ معیار اور ضابطوں کی پابندی کے ساتھ کام کرتا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکی محکمۂ انصاف نے خود کہا ہے کہ یہ محض الزامات ہیں اور گروپ کے بقول جب تک الزام ثابت نہ ہو جائے ملزم کو بے قصور سمجھا جاتا ہے۔ اس کے مطابق الزامات کے جواب میں تمام تر قانونی آپشنز بروئے کار لائے جائیں گے۔

حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے کہا کہ امریکی فردِ جرم میں جن ریاستوں کا ذکر کیا گیا ہے ان تمام میں اس وقت اپوزیشن کی حکومتیں تھیں۔

بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ جن ریاستوں میں اہل کاروں کو اڈانی گروپ کی جانب سے مبینہ طور پر رشوت دینے کا الزام ہے وہ اڑیسہ، تمل ناڈو، چھتیس گڑھ اور آندھرا پردیش ہیں اور ان سب میں حزبِ اختلاف کی حکومتیں تھیں۔

انھوں نے اس واقعے کی ٹائمنگ پر سوال اٹھایا اور کہا کہ یہ سب بھارتی پارلیمان کے اجلاس کے آغاز اور امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت سنبھالنے سے قبل ہوا ہے۔ یاد رہے کہ 25 نومبر کو پارلیمان کے سرمائی اجلاس کا آغاز ہو رہا ہے۔

اڈانی گروپ کے شیئرز میں 20 فی صد کی گراوٹ

دریں اثنا اس خبر کے سامنے آنے کے بعد جمعرات کی صبح کو اڈانی گروپ کے شیئرز میں 20 فی صد کی گراوٹ آ گئی جس کی وجہ سے اسے 22 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

گروپ کی جن کمپنیوں کو نقصان ہوا ہے وہ ہیں اڈانی پورٹز، اڈانی ٹوٹل گیس، اڈانی گرین، اڈانی پاور، اڈانی ولمار اینڈ اڈانی انرجی سولیوشن، اے سی سی، امبوجہ سمینٹ اور این ڈی ٹی وی۔

الزامات کے سامنے آنے کے بعد اڈانی گروپ نے 600 ملین ڈالر کے بانڈز کی فروخت بند کر دی۔

’کارپوریٹ دنیا کے لیے بری خبر‘

ماہرینِ معیشت اور اقتصادی تجزیہ کاروں نے اسے بھارتی صنعت و تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے بری خبر قرار دیا ہے۔

سینئر اقتصادی تجزیہ کار جاوید عالم کا کہنا ہے کہ اس قسم کے الزامات سے کاروباری دنیا کا اعتبار مجروح ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا اثر ملکی و عالمی دونوں سطحوں پر پڑے گا۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہو گی اور اندرونِ ملک سرمایہ کاری بھی۔

ان کے بقول حکومت کی جانب سے بڑے تجارتی اداروں کو کاروبار کرنے کے لیے جو سہولتیں دی جا رہی تھیں، آنے والے دنوں میں اس کو دھچکہ لگے گا۔ اس کے ساتھ ہی غریب حامی پالیسیوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل ایک امریکی شارٹ سیلر کمپنی ’ہنڈن برگ‘ کی جانب سے اڈانی گروپ پر بدعنوانی کے الزامات عاید کیے گئے تھے جسے اڈانی گروپ نے مسترد کر دیا تھا۔

جاوید عالم کہتے ہیں کہ ُاس معاملے میں حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ دوسرے معاملات بھی سامنے آئے تھے۔ ایسے معاملات میں حکومت کی خاموشی پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ جہاں تک بدعنوانی کے الزامات کے انکشاف کی بات ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ کیوں کہ ایسے کیسیز کے سامنے آنے سے ممکن ہے کہ بدعنوانی پر کچھ روک لگے۔ لیکن اس کے نقصانات بھی ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ بزنس اور ریگولیٹری میکینزم میں شفافیت ہونی چاہیے۔ اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے۔ اگر بدعنوانی کا بول بالا ہو اور کاروبار کے لیے ماحول سازگار نہ ہو تو کوئی یہاں کیوں اپنا کاروبار کرے گا۔

مودی اور اڈانی میں قربت کا الزام اور الیکٹورل بانڈز

کانگریس سمیت حزبِ اختلاف کی متعدد جماعتوں کی جانب سے نریندر مودی اور گوتم اڈانی میں سازباز کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کی گوتم اڈانی سے دوستی ہے جس کی وجہ سے وہ اڈانی گروپ کو مالی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ان پر اڈانی گروپ کے لیے بعض تجارتی ضابطوں میں ترمیم کا بھی الزام ہے۔

حکومت، اڈانی گروپ اور بی جے پی کی جانب سے اس الزام کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق گوتم اڈانی نے گزشتہ سال فروری میں ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرِ اعظم کی جانب سے حمایت کیے جانے کے الزام کی تردید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی ترقی کسی انفرادی سیاست داں کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے۔

ادھر امریکہ کے میڈیا ادارے ’بلومبرگ‘ کی ارب پتی کاروباریوں کی ایک فہرست کے مطابق 2014 میں نریندر مودی کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد اڈانی گروپ کی دولت میں 2000 فی صد کا اضافہ ہوا۔

جب الیکٹورل بانڈز کا معاملہ اٹھا تھا تو اس وقت بھی اڈانی گروپ کا نام سامنے آیا تھا۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اڈانی گروپ سے متعلق چار کمپنیوں نے 55.4 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈز خریدے تھے جن میں سے 42.4 کروڑ روپے کے بانڈز بی جے پی نے کیش کرائے تھے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈز اسکیم کو غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کر دیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG