امریکہ میں پولیس تحویل کے دوران ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد سے پولیس اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ مظاہرین کی جانب سے کیے جانے والے مطالبات کے پیشِ نظر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت بھی محکمۂ پولیس میں اصلاحات کے مسودے پر کام کر رہی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ پولیس کے محکمے میں اصلاحات کے مسودے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ البتہ وائٹ ہاؤس نے پولیس کو حاصل استثنیٰ کم کرنے یا محدود کرنے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔
بدھ کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے پریس سیکریٹری کیلی میکنینی نے کہا کہ مظاہرین کے پولیس سے متعلق خدشات کے حل کے لیے حکومت نے اپنا مسودہ تیار کر لیا ہے جو آخری مراحل میں ہے اور اس کی تفصیلات جلد بتائی جائیں گی۔
پریس سیکریٹری نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ 10 روز بڑی خاموشی اور عرق ریزی سے پولیس اصلاحات کے مسودے پر کام کرنے میں گزارے ہیں۔ تاکہ ان مسائل کو حل کیا جا سکے جن پر ملک بھر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔
البتہ انہوں نے پولیس کو حاصل استثنیٰ محدود کرنے یا کم کرنے کے امکان کو مسترد کیا۔ پریس سیکریٹری کا کہنا تھا کہ پولیس کو حاصل استثنیٰ کم کرنے کی کوششوں کو صدر کی حمایت حاصل نہیں ہے کیوں کہ ان کے بقول اس سے پولیس کے محکمے پر اچھا اثر نہیں پڑے گا۔
SEE ALSO: جارج فلائیڈ کے بھائی کا پولیس اصلاحات کا مطالبہیاد رہے کہ 25 مئی کو جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد سے امریکہ بھر میں مظاہرے جاری ہیں اور مظاہرین پولیس اصلاحات اور پولیس کی فنڈنگ کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹ ارکان بھی انہی مطالبات کے پیشِ نظر پولیس اصلاحات کے مسودے پر کام کر رہے ہیں۔
پیر کو ڈیموکریٹس کی جانب سے پولیس اصلاحات کے معاملے پر ایک مجوزہ بل سامنے آیا تھا جسے ایوانِ نمائندگان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اس بل میں پولیس کو حاصل استثنیٰ محدود کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔
ڈیموکریٹ ارکان کے مجوزہ بل میں ملزمان کی گردن گھٹنے سے دبانے پر پابندی اور ایک نیشنل ڈیٹابیس قائم کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے جس میں پولیس افسران کے مِس کنڈکٹ کا ریکارڈ رکھا جا سکے گا۔ اس بل پر آئندہ ہفتے ووٹنگ متوقع ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹ جماعت کی اکثریت ہے جب کہ امریکی سینیٹ میں ری پبلکن جماعت کے اراکین اکثریت میں ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب چوں کہ وائٹ ہاؤس میں بھی پولیس اصلاحات کے مسودے پر کام جاری ہے، لہٰذا ڈیموکریٹ جماعت کو اپنا بل سینیٹ سے منظور کرانے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ بدھ کو بھی جاری رہا۔ بوسٹن، آک لینڈ اور کئی دیگر شہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے مارچ کیا اور محکمۂ پولیس کی فنڈنگ کم کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں بھی مظاہرین کی بڑی تعداد جمع ہوئی اور پرامن احتجاج کیا۔ اس سے قبل مظاہروں کے ابتدائی دنوں میں سیاٹل کے کئی علاقے پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں کی وجہ سے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے رہے تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو سیاٹل کے مظاہرین سے متعلق ایک ٹوئٹ کی اور انہیں مقامی دہشت گرد قرار دے دیا۔
صدر ٹرمپ نے شہر کی انتظامیہ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین سے اپنا شہر واپس لیں۔ اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو میں کروں گا۔ یہ کوئی کھیل نہیں ہے۔
جواباً سیاٹل کی میئر جینی ڈرکن نے بھی ٹوئٹ کی اور صدر ٹرمپ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں محفوظ رہنے دیں اور اپنے بنکر میں واپس چلے جائیں۔