جماعتِ اسلامی دھرنا سیاست سے غائب کیوں؟

فائل فوٹو

پاکستان کی حزب اختلاف کی اکثر جماعتيں جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ 'آزادی مارچ' ميں شریک ہيں۔ تاہم دھرنا سياست کے لیے مشہور اور مولانا کی سابق اتحادی جماعتِ اسلامی اس بار مارچ اور دھرنے میں شامل نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی پاليسيوں کے خلاف 'آزادی مارچ' 27 اکتوبر کو کراچی سے شروع ہوا تھا جبکہ یہ مارچ ملک کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا دارالحکومت اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق گزشتہ سال کے انتخابات ميں بڑے پيمانے پر دھاندلی ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے وہ عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہيں۔

جمعے کو شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے وزير اعظم کو مستعفی ہونے کے لیے دو دن کی مہلت بھی دی ہے۔

فائل فوٹو

معروف عالمِ دین سيد ابو الاعلی مودودی نے ديگر ساتھیوں کے ہمراہ اگست 1941 ميں لاہور ميں جماعتِ اسلامی کی بنياد رکھی تھی۔ 1970 کے پہلے جمہوری انتخابات ميں جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کی چار جب کہ پنجاب، سندھ اور سرحد (موجودہ خيبر پختونخوا) سے ايک، ايک نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد کے انتخابات ميں اس پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ ہونے کی چھاپ لگی۔ جماعتِ اسلامی پر اس الزام کی گونج اب تک وقفے وقفے سے سنائی دیتی ہے۔

جماعتِ اسلامی نے 2002 کے انتخابات سے قبل جمعیت علماء اسلام (ف) کے ہمراہ چھ جماعتی اتحاد 'متحدہ مجلس عمل' (ایم ایم اے) بنایا تھا۔ یہ اتحاد صوبہ خيبر پختونخوا ميں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب رہا تھا۔

اس کے بعد 2013 کے انتخابات میں جماعت اسلامی تحريک انصاف کے ساتھ اتحاد کی بنياد پر ايک مرتبہ پھر صوبہ خيبر پختونخوا حکومت کا حصہ رہی۔ ليکن 2018 کے انتخابات ميں غير تسلی بخش کارکردگی کے بعد سے جماعت اسلامی ملکی سطح کی سياست میں غير فعال نظر آ رہی ہے۔

فائل فوٹو

مبصرین کے مطابق جماعت اسلامی کی قيادت اس وقت تذبذب کا شکار ہے۔ بظاہر تو وہ احتياط کی پاليسی پر گامزن ہے ليکن حالات کا صحيح طريقے سے ادراک نہیں کر پا رہی۔

'جماعت اسلامی کو دعوت ہی نہیں دی گئی'

جماعتِ اسلامی کے نائب امير پروفيسر ابراہيم 'آزادی مارچ' کے حوالے سے کہتے ہیں کہ جماعتِ اسلامی کو باقاعدہ دعوت ہی نہیں دی گئی۔

پروفیسر ابراہیم کے مطابق موجودہ صورتِ حال ميں جماعتِ اسلامی کی دوسرے سياسی کاموں کے بجائے توجہ کشمير پر مرکوز ہے۔ پانچ اگست سے آج تک سرینگر ميں کرفيو نافذ ہے اور بھارت کے زيرِ انتظام کشمير ايک جيل کی تصوير پيش کر رہا ہے۔

جماعت اسلامی کے نائب امیر کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش تھی کہ حکومت اور حزب اختلاف کشمير کے معاملے پر متحد ہو جائے ليکن حکومت نے بھی کسی اچھی حکمت عملی کا مظاہرہ نہیں کيا جبکہ اپوزيشن نے بھی اسے پس پشت ڈال ديا ہے اور حکومت کے خلاف نکل آئے ہيں۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کا موقف يہی ہے کہ ہم حکومت گرانے کی تحريک کا حصہ نہیں بنیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جو وعدے عوام سے کیے ہيں ان کو پورا کرنا چاہیے۔

خیال رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف 'آزادی مارچ' ميں شریک حزب اختلاف کی جماعتوں نے 2018 کے انتخابات پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ان کے خيال ميں تحريک انصاف دھاندلی کے ذریعے اقتدار ميں آئی۔

پروفيسر ابراہيم کہتے ہیں کہ اُن کے بھی 25 جولائی 2018 کے انتخابی نتائج پر شبہات ہيں جبکہ حکومت نے اس ضمن ميں ايک پارليمانی کميٹی بھی قائم کی ليکن اس کميٹی نے کوئی کام نہیں کيا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بھی حکومت کی کارکردگی بلکل منفی ہے۔

جماعت اسلامی کی سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی ملک کی مرکزی سياست کا حصہ ہيں تاہم اس وقت اولين ترجيح حکومتيں گرانا نہیں بلکہ کشمير کا معاملہ ہونا چاہیے۔

'جماعت اسلامی دو حصوں ميں تقسيم ہے'

جمعیت علماء اسلام (ف) کے خيبر پختونخوا کے ترجمان جليل جان نے وائس آف امريکہ کو بتايا کہ 'آزادی مارچ' سے قبل جماعت اسلامی سے ضرور بات کی تھی ليکن ان کی قیادت کا موقف تھا کہ وہ حزب اختلاف کی ديگر جماعتوں کے ساتھ اس مارچ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اس لیے وہ ہماری آزادی مارچ کا حصہ نہیں ہيں۔

جليل جان نے مزيد کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق جماعت اسلامی بھی دو حصوں ميں تقسيم ہے۔ کچھ مارچ ميں شرکت کے حامی ہيں جبکہ ديگر شریک نہیں ہونا چاہتے۔

جے یو آئی (ف) کے ترجمان کے بقول يہ ان کے داخلی مسائل ہيں اور ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کيونکہ ان کی اپنی کور کميٹی ہے اور ہماری اپنی۔ دونوں اپنے فيصلے کرنے کے مجاز ہيں۔

Your browser doesn’t support HTML5

'آزادی مارچ' کا اسلام آباد میں پہلا دن

واضح رہے کہ 2002 کے بعد 2018 ميں جماعت اسلامی نے ايک مرتبہ پھر متحدہ مجلس عمل کے پليٹ فارم سے انتخابات میں حصہ ليا تھا۔ اليکشن ميں زیادہ نشستوں کے حصول میں ناکامی کے بعد جماعت اسلامی نےايم ايم اے سے راہيں جدا کيں اور آئندہ بغير کسی اتحاد کے انتخابات ميں اپنے انتخابی نشان 'ترازو' کے تحت حصہ لينے کا فيصلہ کيا۔

رواں سال ملکی تاريخ ميں پہلی بار سابقہ قبائلی علاقوں ميں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اليکشن ہوئے جس ميں جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی نے اپنے اپنے پليٹ فارم سے حصہ ليا۔

'ايم ايم اے اب بھی وجود رکھتی ہے'

جے یو آئی (ف) کے خیبر پختونخوا کے ترجمان جليل جان کے مطابق ايم ايم اے اب بھی وجود رکھتی ہے ليکن فعال نہیں ہے۔

انپوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے علاوہ ديگر جماعتيں ان کے ساتھ ہيں اور مارچ کا حصہ ہيں۔

جماعت اسلامی نے 2018 کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تھا — فائل فوٹو

جلیل جان نے تصدیق کی کہ جمعيت علماء اسلام اور جماعت اسلامی میں کسی بھی سطح پر سياسی اتحاد نہیں ہے۔ تاہم مستقبل کے حوالے سے خواہش ہے کہ تمام مذہبی جماعتیں متحد ہوں۔

'جماعت اسلامی کے مختلف اوقات ميں مختلف فيصلے'

جماعت اسلامی کی حکمت عملی کے حوالے سے سينئر تجزيہ کار مجيب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے امير سراج الحق موجودہ صورت حال ميں انفرادی سياست کے قائل ہيں اور اپنا پيغام باقی تمام جماعتوں سے الگ رکھتے ہوئے عوام کو اپنا پيغام دينا چاہتے ہيں۔

مجیب الرحمٰن شامی کے بقول وہ کسی ايسی تحريک کا حصہ نہیں بننا چاہتے جس سے بے يقينی پيدا ہو يا حالات قابو سے باہر ہو جائيں۔

SEE ALSO: پاکستان میں دھرنوں اور لانگ مارچ کی تاریخ

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے مجيب الرحمٰن شامی نے بتايا کہ جماعت اسلامی مختلف اوقات ميں مختلف فيصلے کرتی آئی ہے۔ کبھی اس نے تنہا انتخابت میں حصہ لیا۔ کبھی اس نے سیاسی اتحاد بنائے تو کبھی انتخابات ميں حصہ انتخابی پارٹی کے طور پر حصہ ليا۔

ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے پی اين اے، آئی جے آئی پھر اس کے بعد اسلامک فرنٹ جیسے اتحاد بنائے ليکن ان تجربات میں کامياب نہیں مل سکی۔

متحدہ مجلس عمل کا حوالہ دیتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ جماعت اسلامی نے مذہبی جماعتوں کے ساتھ اشتراک کيا جس ميں اس کو بہت بڑی کاميابی نصيب بھی ہوئی ليکن پھر ان کا اور جمعیت علماء اسلام (ف) کا ساتھ برقرار نہ رہ سکا۔

جماعت اسلامی کی جانب سے ملک کے کئی شہروں میں کشمیر کے حوالے سے احتجاج کیا گیا ہے — فائل فوٹو

مجیب الرحمٰن شامی کے بقول جماعت اسلامی کی قیادت اس نتيجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب ان کو تنہا سياست کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے کيونکہ ان کے پاس اب کھونے کے لیے کوئی اثاثہ باقی نہیں رہا۔

جماعت اسلامی کے حوالے سے مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ ان کا ووٹ بينک سُکڑ رہا ہے۔ ان کی حمايت پہلے کی نسبت کم ہوئی ہے۔ اسمبلی میں ان کی نشستیں کم ہو گئی ہيں۔ وہ کافی کچھ کھو چکے ہیں۔

مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق اب جماعت اسلامی کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔