اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پیر کو اپنے ایک فیصلے میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنادی ہے۔
چار عشروں تک پاکستان کے سیاسی فلک پر جلوہ گر رہنے والے، پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ، تین بار کے وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ، میاں محمد نواز شریف کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔
سال 2018ء میاں نواز شریف کے لیے آزمائش کے لرزہ خیز دِن ساتھ لایا۔
پانامہ پیپزر کے معاملے پر مقدمہ چلنے اور سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے فارغ ہوئے۔ ساتھ ہی مسلم لیگ ن کی قیادت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور ساتھ مبینہ بدعنوانی کے الزامات میں کئی مقدمات کا سامنا کیا۔
سال 2018ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھوں شکست کھائی؛ اور یوں، مسلم لیگ ن دوسری جب کہ پیپلز پارٹی تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئیں۔ اِس وقت مسلم لیگ ن کی وفاق ہی نہیں کسی صوبے تک میں بھی حکومت نہیں ہے۔
حقیقت کچھ بھی ہو، نواز شریف کے چاہنے والے اب بھی کم نہیں۔ اُن کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ صنعت کار تھے اور زمیندار کی طرح پولیس اور کورٹ کچہری سے واسطہ پڑنے کی تربیت سے ناآشنا تھے، اور بروقت فیصلے کی قوت سے قاصر رہے۔
کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی باریاں لگی ہوئی تھیں؛ جس سلسلے کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین، عمران خان نے چیلنج کیا اور طویل جدوجہد کے بعد، انتخابات میں دونوں جماعتوں سے فوقیت حاصل کرکے وزیر اعظم بنے۔
نواز شریف کا پیر کو سنائی جانے والی سزا ایک ایسے وقت ہوئی جب سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک سربراہ آصف علی زرداری کے خلاف بھی مالی بدعنوانی اور منی لونڈرنگ کے مقدمات عائد ہیں۔ سابق صدر کے خلاف بھی شکنجہ کسا جا رہا ہے۔
گزشتہ سال نواز شریف اور اُن کی جماعت کے فوج اور عدلیہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے۔
میاں نواز شریف تین بار 1990سے 1993ء؛ 1997سے1999ء؛ اور 2013سے 2017ء تک ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔
نواز شریف 25 دسمبر 1949ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُنھیں کرکٹ سے خصوصی شغف تھا۔ لیکن وہ اپنے والد، میاں محمد شریف کے لوہے اور اسٹیل کے کاروبار، 'اتفاق گروپ‘ سے منسلک ہوئے۔ اُن کے خاندان کا تعلق کشمیر کے علاقے، پلوامہ سے تھا۔
اُنھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تجارت کی تعلیم حاصل کی۔ گريجويشن کے بعد اُنھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 1970کی دہائی میں سیاست میں داخل ہوئے۔
نواز شریف کو سیاست کے میدان میں لانے والے صدر جنرل ضیا الحق تھے۔ پہلے وہ پنجاب کے وزیر خزانہ بنے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں وہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں کامیاب ہوئے اور 1985ء سے 1990ء تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔
اکتیس مئی 1988ء کو جنرل ضیا نے محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی۔ تاہم، نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثت سے نواز شریف کا عہدہ برقرار رہا۔ وہ سابق صدر کے بہت ہی قریب تھے، یہاں تک کہ جنرل ضیا نے اُنھیں اپنی عمر لگ جانے تک کی دعا دی تھی۔
صوبائی گورنر جنرل جیلانی کی مدد سے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا گیا؛ جس کے زیر سایہ انتخابات لڑ کر نواز شریف نے پیپلز پارٹی کو شکست دی۔
اکتوبر 1999ء میں فوجی بغاوت کے بعد اُن کی حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ اس سے قبل اُنھوں نے فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ بعدازاں، اُن کے خلاف ’طیارہ سازش کیس‘ چلا، جس میں اغوا اور قتل کے الزامات بھی شامل تھے۔ ایک خفیہ معاہدے کے تحت وہ جلاوطن ہو کر سعودی عرب چلے گئے۔
سال 2006 میں اُنھوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ اِس کے بعد ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ ہوا اور اپنے خاندان کے ہمراہ 25 نومبر 2007ء کو سعودی عرب سے لاہور پہنچے۔
سال 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو واضح اکثریت ملی اور نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ پروفیسر طاہر القادری کی ’انقلاب مارچ‘ کے نام سے حکومت مخالف تحریک کے دوران، ماڈل ٹاؤن میں 14 افراد کی ہلاکت کے الزام پر وزیر اعظم سمیت 9 افراد کے خلاف قتل کی 'ایف آئی آر' درج ہوئی۔
پاناما کیس کی سماعت کے بعد، سپریم کورٹ کی جانب سے 28 جولائی 2017ء کو وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔
اُن کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اُن کا طرز حکمرانی شاہانہ تھا جب کہ دور اندیشی سے عاری فیصلے کرنے میں اُن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ بقول ناقدین، اپنے پرائے کی پہچان نہ رکھنا اور بروقت فیصلوں میں کوتاہی برتنے کا انداز نواز شریف کی ناکامی کا سبب بنا؛ جب کہ ساتھیوں اور احباب کی نظر میں، وہ اب بھی ایک مخلص، محب وطن اور دوست پرور شخص ہیں۔