تسنیم خلیل کو بنگلادیش کی حکومت پر تنقید کی پاداش میں ملک کی عسکری انٹیلی جنس ایجنسی نے ہراساں کیا اور جب وہ اسے خاموش نہ کرا سکے تو ان کی والدہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے بیٹے کو بقول ان کے ملک مخالف تحریروں سے باز رکھیں۔
آئیے ان کی وائس آف امریکہ کو آزادئ صحافت کے حوالے سے ایک انٹرویو میں سنائی گئی روداد سنتے ہیں۔
تسنیم جو اب سویڈن میں نیٹرا نیوز کے مدیر اعلی ہیں، کہتے ہیں کہ وہ بنگلادیشی حکام کی بدعنوانیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے متعلق اپنے رپورٹرز کے کام کے ذریعہ عوام کو آگاہ کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حکام ان سے ناخوش ہیں:
"انہوں نے میرے خاندان کو نشانہ بنایا ہے۔ اور میرے خاندان کو ہراساں کر کے مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کی ہے۔حکومت نے ڈیجیٹل سیکیورٹی کے کالے قانون کے تحت مجھ پر مقدمہ دائر کیا جس میں مجھ پر لگائے گئے الزامات مبہم ہیں۔
"مجھ پر ایک الزام یہ ہے کہ میں نے ایک مصور کو کارٹون بنانے پر اکسایا۔ میرے لیے یہ الزام حیران کن ہے۔ بھلا کسی کارٹون بنانے والے کو کسی کے اکسانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے کچھ ساتھی جیل میں ہیں اور ان کی ضمانت کو منظور نہیں کیا جا رہا۔"
تسنیم سمجھتے ہیں کہ اگر وہ بنگلہ دیش میں ہوتے تو اب تک انہیں گرفتار کر لیا گیا ہوتا۔
اپریل میں ان کے بقول بنگلہ دیشی عسکری انٹیلی جنس کے تین کارندے ان کے گھر گئے اور ان کی والدہ سے کہا کہ وہ مجھے حکومت پر تنقید کرنے سے روکیں اور ایسی تحریروں سے باز رہیں جو کہ ان کے الفاظ میں بنگلہ دیش کی ریاست کے خلاف جاتی ہیں۔
تسنیم کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کو اس بات پر غصہ آیا اور وہ ڈرنے کی بجائے ان کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ ان کی والدہ نے کہا کہ "جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو درست نہیں۔ میں ایک معمر شہری ہوں اور تم میرے بالغ بیٹے کے کام کے باعث مجھے یوں گھر آ کر ہراساں نہیں کر سکتے۔"
وہ کہتے ہیں کہ انہیں بھی اس بات پر غصہ آیا کیونکہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا اور وہ انہیں روکنے کے لیے اس حد تک گر سکتے ہیں۔
تسنیم کے مطابق بنگلہ دیش میں صورت حال روز بروز بگڑ رہی ہے۔ اور گزشتہ کئی سالوں سے ملک زیادہ سے زیادہ آمرانہ بنتا جا رہا ے۔ صرف پولیس، جس نے تمام اداروں کی جگہ لے رکھی ہے، کھڑی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ بنگلہ دیش میں آزادی صحافت کے حوالے سے صورت حال کبھی بھی اچھی نہیں رہی۔
وہ کہتے ہیں:
"لیکن اب یہ صورت حال بدترین ہو چکی ہے۔ ملک میں صحافیوں، مخالفین اور سیاسی کارکنان کے خلاف ڈیجیٹل سیکیورٹی قانون کے تحت حکومت پر تنقید کرنے کی بنا پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ صحافت کا وجود ہی نہیں ہے۔"
تسنیم کی اشاعت نیٹرا نیوز کا سویڈن میں ہیڈ کوارٹر ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سے وابستہ صحافی بنگلہ دیش میں آزادانہ کام انجام نہیں دے سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ ان کے صحافیوں کو جسمانی یا عدالتی طور پر ہراساں کیا جائے۔
اس انٹرویو میں بیان کئے گئے مسائل پر وائس آف امریکہ نے بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ سے ان کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔