لندن سے کام کرنے والی ایرانی صحافی نازنین انصاری کے دل و دماغ میں اس وقت خوف کی لہر دوڑ گئی جب انہوں نے ایرانی حکومت کے ایک مشتبہ کارندے کی جانب سے ای میل میں بھیجا پیغام کھولا۔
ای میل میں لکھا تھا: تمہاری بیٹی کیسی ہے۔ کیا وہ خیریت سے ہے؟
ای میل سے صاف ظاہر تھا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نازنین برطانیہ میں کام کر رہی تھی۔ ایرانی خبررساں ویب سائٹس کیہاں لنڈن اور کیہان لائف کی مینیجنگ ایڈیٹر کے طور پر انہیں یہ تو آزادی حاصل ہے کہ وہ ایران کے متعلق باہر بیٹھ کر آزادانہ خبریں دے سکتی ہیں۔
لیکن ایران سے 4300 کلومیٹر دور لندن میں بھی ایرانی کارندے نازنین کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خاندان کے قریبی لوگوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایران جیسی آمرانہ حکومتیں ملک سے باہر کام کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے آزادی صحافت کے حوالے سے ایک انٹرویو میں نازنیں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کے بارے میں مشتبہ ایرانی ایجنٹ کے پیغام کے بعد وہ کئی روز تک پریشان اور کپکپی کی کیفیت سے دو چار رہیں۔
ہراساں کرنے کے علاوہ امریکہ سے تعلیم یافتہ نازنین کہتی ہیں کہ صحافیوں کو قانونی کاروائیوں سے بھی دباؤ میں رکھنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
نازنیں کے مطابق ایسا وہ افراد کرتے ہیں جو ایرانی حکومت کے قریب ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دوسرے ناشروں کی طرح ان کی کمپنی بھی قانونی پیچیدگیوں میں الجھنے کی بجائے وہ اپنی ویب سائٹ سے جھگڑے کا باعث بننے والا مواد ہٹا دیتی ہیں۔
ان سب نامساعد حالات میں تہران کی جانب سے ہراساں کیے جانے والی مہم صحافیوں کے لیے نفسیاتی پریشانی کا سبب بنتی ہے۔ لیکن ملک سے باہر رہنے والے صحافیوں کا حوالہ دیتے ہوئے نازنین بتاتی ہیں کہ ہمت ہارنے کی بجائے ملک بدر صحافی زیادہ تن دہی سے اپنا کام انجام دینے میں لگ جاتے ہیں۔
ملک سے باہر ایرانی صحافی نہ صرف برطانیہ سے کام کرتے ہیں بلکہ سائپرس، فرانس، جرمن، اٹلی، ترکی اور امریکہ میں رہ کر بھی اس شعبے سے وابستہ رہتے ہیں۔ ان میں سے کئی صحافیوں کے خاندان اب بھی ایران میں رہتے ہیں لیکن یہ صحافی ایران واپس نہیں جاتے۔
کھلم کھلا دھمکیوں کے علاوہ صحافیوں کو لطیف شکل میں ہراساں کرنے کی کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔ صحافیوں کے ایران میں بسنے والے خاندان کے افراد کو فون پر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے رشتہ دار صحافیوں سے درخواست کریں کہ برائے مہربانی فلاں مسئلے یا موضوع پر نہ لکھیں یا ایسے موضوعات پر لکھتے وقت محتاط انداز اپنائیں۔
ان مسائل کے اثرات کے متعلق نازنین نے کہا:
"ایسی باتوں سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہم کوئی بہت ہی اہم کام سر انجام دے رہے ہیں اور اسے جاری رہنا چاہیے۔
"لہذا ہم اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہم ایران کے بارے ایسی باتوں اور کہانیوں کو منظر عام پر لاتے ہیں جو دوسرے خبر رساں ادارے نہیں چھاپتے یا وہ ان کے بارے میں علم نہیں رکھتے۔"
مثال کے طور انہوں نے کہا کہ ان کی ویب سائٹ کیہان لندن نے یہ خبر دی تھی کہ رواں برس کے آغاز میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے متعلق خبردار کیے جانے کے باوجود ایران کی ایک ہوائی کمپنی ماہان ایئر نے چین سے فروری تک پروازیں جاری رکھیں۔