اسرائیل کی غزہ میں زمینی کارروائی؛ کیا حماس کا ’خطرہ‘ ختم ہو جائے گا؟

اسرائیل کا مؤقف ہے غزہ کی لگ بھگ 41 کلومیٹر طویل پٹی کے شمال اور غزہ سٹی میں حماس کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ (فائل فوٹو)

زمینی کارروائی کے تیسرے روز اسرائیلی فوج کی شمالی غزہ میں پیش قدمی جاری ہے اور اطلاعات کے مطابق یہ اب آباد علاقوں کے نزدیک پہنچ چکی ہے۔ ہفتے کو اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے غزہ میں شروع ہونے والی زمینی کارروائی کو حماس کی جانب سے سات اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی جنگ کا ’دوسرا مرحلہ‘ اور آزادی کی دوسری جنگ قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ امریکہ حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے اپنی تقریر میں واضح کیا تھا کہ جنگ طول پکڑ سکتی ہے اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کے لیے ہونے والی جنگ سے اس کا موازنہ کیا ہے۔ فلسطینی اس جنگ کو ’نقبہ‘ یا تباہی قرار دیتے ہیں۔

حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل نے 12 اکتوبر کو شمالی غزہ اور غزہ سٹی کے رہائشیوں کو علاقہ چھوڑ کر جنوب کی جانب نقل مکانی کرنے کی وارننگ دی تھی اور غزہ کی سرحد پر بڑی تعداد میں فوج تعینات کردی تھی۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ غزہ کی لگ بھگ 41 کلومیٹر طویل پٹی کے شمال اور غزہ سٹی میں حماس کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔

تاہم غزہ میں جاری زمینی کارروائی سے قبل اسرائیل نے غزہ کے شمالی اور جنوبی حصوں میں فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ ہفتے کو شروع ہونے والی زمینی کارروائی میں اسرائیل کی پیدل فوج اور ٹینک شریک ہو رہے ہیں۔

اسرائیل اور حماس جنگ میں اب تک اس تنازع کے باعث ہونے والی جنگوں میں اس بار دونوں جانب سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔

حماس کے زیرِ کنٹرول غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی ہلاکتیں آٹھ ہزار سے تجاوز کرچکی ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ جب کہ اسرائیل میں 1400 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں سے زیادہ تر سات اکتوبر کو حماس کے ابتدائی حملے میں ہوئی تھیں۔ حماس نے سات اکتوبر کے حملے میں دو سو سے زائد اسرائیلوں کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم نے حماس کی عسکری قوت کے مکمل خاتمے اور سات اکتوبر کے حملے میں اس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی بازیابی کو زمینی کارروائی کا ہدف قرار دیا ہے۔

تاہم اسرائیل کو یہ اہداف حاصل کرنے میں کتنی کام یابی ملتی ہے؟ اور اس کی جاری کارروائی کے مستقبل میں کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟ اور کیا مستقبل میں یہ لڑائی اسرائیل اور حماس کے تنازع سے بڑھ کر خطے میں پھیل سکتی ہے؟ یہ سوالات گزرتے وقت سے ساتھ مزید اہم ہوتے جا رہے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

اسرائیل کی بمباری: شمالی غزہ کیوں اہم ہے؟


شمالی غزہ میں کیا ہو رہا ہے؟

اسرائیلی فورسز بظاہر غزہ کے شمال میں اندر تک پہنچ گئی ہیں۔ اسرائیل کی فوج کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو کے مطابق فورس کی بکتر بند گاڑیاں عمارتوں کے درمیان چلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں اور فوجی ایک مکان میں پوزیشن لے رہے ہیں۔

اس ویڈیو کی درست لوکیشن معلوم نہیں ہے تاہم اس سے قبل فوج کی جاری کردہ ویڈیوز میں اہل کار کو شمالی غزہ کی سرحدی باڑ کے نزدیک خالی صحرائی علاقوں میں نقل و حرکت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے پیر کو دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ رات کی کارروائیوں میں غزہ کے اندر عمارتوں اور سرنگوں سے حملہ کرنے والے درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس کے علاوہ فوج کے مطابق اس نے حماس کی جانب سے مورچے کے طور پر استعمال ہونے والی عمارت پر بھی حملہ کیا ہے۔

علاوہ ازیں اسرائیل کی جانب سے گزشتہ چند دنوں میں چھ سو سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے سمیت ہتھیاروں کے ڈپو اور ٹینک شکن میزائل فائر کرنے کے لیے بنائے گئے مورچے تباہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق‘ ان دعوؤں کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

دوسری جانب حماس کے عسکری ونگ القاسم بریگیڈ کے مطابق اس کے عسکریت پسندوں نے چھوٹے ہتھیاروں اور ٹینک شکن میزائلوں کی مدد سے شمالی غزہ میں داخل ہونے والے اسرائیلی فوجیوں سے جھڑپیں کی ہیں۔

فلسطینی عسکریت پسندوں نے تل ابیب سمیت اسرائیل کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنانے کے لیے راکٹ حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 23 لاکھ آبادی والی غزہ کی پٹی کے زیادہ تر علاقوں میں اتوار تک ایک دن کی بندش کے بعد فون اور انٹرنیٹ کی سروس بحال کر دی گئی ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ کے زیادہ تر رہائشیوں نے جنوب کی طرف نقل مکانی کے احکامات پر عمل کیا ہے۔ لیکن اب بھی ہزاروں افراد شمال میں موجود ہیں کیوں کہ اسرائیل نے ان جنوبی علاقوں میں فضائی حملے جاری رکھے ہیں جنھیں اس نے ’سیف زونز‘ قرار دیا تھا۔ غزہ میں اب تک 14 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

حماس اور اسرائیل کب کب آمنے سامنے آئے؟

غزہ کی صورتِ حال اور خدشات

امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے مطابق تین ہفتوں سے جاری اسرائیلی فضائی حملوں نے غزہ میں سنگین انسانی المیے کی صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔

اسی دوران اقوامِ متحدہ اور طبی عملہ خبردار کر چکا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملے اسپتالوں کے نواح کو متاثر کر رہے ہیں جہاں ہزاروں فلسطینیوں نے پناہ لی ہوئی ہے جن میں ایک بڑی تعداد زخمیوں کی بھی ہے۔

اسرائیل کی زمینی کارروائیوں میں یہ اضافہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب مصر سے غزہ میں امدادی سامان، خوراک اور دواؤں کے درجنوں ٹرک پہنچے ہیں۔ رواں ماہ اسرائیل حماس جنگ کے آغاز کے بعد یہ جنگ زدہ غزہ کی پٹی میں پہنچنے والی سامانِ رسد کی سب سے بڑی کھیپ ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پیر کو غزہ میں موجود امدادی کارکنان کا کہنا تھا کہ کئی ہفتوں سے محصور غزہ کے لیے آنے والی امداد تاحال ضروریات سے کم ہے۔

اسرائیلی افواج نے اتوار کو واضح کیا تھا کہ ان کی کارروائی کا ہدف حماس ہے، غزہ کے عام شہری نہیں۔ تاہم غزہ سے شہری علاقوں میں نقصانات کی رپورٹس اور فوٹیجز موصول ہو رہی ہیں جن کے باعث اسرائیل کی پیش قدمی اور امریکہ کی اس کے لیے مدد پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اس معاملے پر امریکہ کا مؤقف واضح کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم اسرائیل کو جو بھی مدد فراہم کررہے ہیں وہ جنگی قوانین اور بے گناہ افراد کے تحفظ کے ان تقاضوں سے مشروط ہے۔

وائس آف امریکہ کے لیے ویرونکا بیلدیراس اگلیسیئس کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی زمینی کارروائیوں پر یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے اہلِ خانہ تشویش ظاہر کر رہے ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ حماس کے اغواہ شدہ ان کے رشتے داروں کو اس سے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

ٹیمپل ماؤنٹ یا الاقصٰی: یروشلم کے مذہبی مقامات پر تنازع کیا ہے؟

جیک سیلوان کا مزید کہنا تھا کہ یرغمال بنائے گئے شہریوں کی بحفاظت واپسی کے لیے کوششیں جاری ہیں اور اس کے لیے جنگ میں انسانی بنیادوں پر وقفے کے لیے زور دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہا امریکہ یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے روزانہ کی بنیادوں پر کام کررہا ہے۔

’یہ تقریباً ناممکن ہے‘

حماس کو ختم کرنے کے لیے شروع کی گئی اسرائیل کی زمینی کارروائی کے نتائج کے بارے میں مبصرین کی مختلف آرا ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے مطابق امریکہ کے سابق ڈپٹی نیشنل انٹیلی جینس افسر اور مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر جوناتھن پینکوف کا کہنا ہے کہ ہفتے کو اسرائیلی وزیرِ اعظم اور ان کی جنگی کابینہ کے ارکان کے بیانات سے ایک بات واضح ہے کہ وہ جنگ کو ماضی میں حماس سے ہونے والی جنگوں اور مسلح تنازعات سے مختلف سمجھتے ہیں۔

جوناتھن پینکوف کے مطابق سات اکتوبر جیسی کارروائی کے بارے میں اسرائیلی رہنما بار بار ’دوبارہ ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا‘ جیسے بیانات دے رہیں۔

ان کے مطابق اسرائیلی رہنما اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حماس اسرائیل کے لوگوں کے لیے ایک ناقابلِ برداشت خطرہ بن چکی ہے۔

امریکہ کے محکمۂ دفاع میں خصوصی آپریشنز کے شعبے کے سربراہ رہنے والے الیکس پلٹساس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی قیادت اپنی زمینی کارروائی سے متعلق محتاط انداز میں معلومات فراہم کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا متوقع طور پر اس کارروائی میں اسرائیل حماس کی عسکری صلاحیت ختم کرنے کے لیے ایک ایک عمارت کی تلاشی لے گا۔ اس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور ہتھیاروں کا ذخیرہ ختم کرے گا۔ حماس کے کلیدی رہنماؤں اور آخری وقت تک لڑنے والے جنگجوؤں کا خاتمہ کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کرے گا۔

SEE ALSO: چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ، جس نے مشرقِ وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیا

امریکی نشریاتی ادارے 'اے بی سی' نیوز کو ایک انٹرویو میں امریکہ کے ایک ریٹائرڈ آرمی جنرل رابرٹ ایبرمز کا کہنا تھا کہ حماس کو ختم کرنے کے لیے شروع کی گئی جنگ ’تقریباً ناممکن‘ مشن ہے اور کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔

رابرٹ ایبرمز کا کہنا تھا کہ حماس ایسے علاقوں میں اپنا دفاع کرے گی جو انتہائی گنجان آباد ہیں۔

ان کے بقول اس تنازع میں ہم ابھی تک جو دیکھ چکے ہیں اس کے برعکس شدید ترین جھڑپیں ہو سکتی ہیں۔ ساتھ ہی اسرائیل کے لیے ایسے مقامات پر غیر ارادی حملوں سے محتاط رہنا بھی ایک چیلنج ہو گا جہاں ممکنہ طور پر اسرائیلی یرغمالی ہو سکتے ہیں۔

جنگ پھیلنے کا خطرہ؟

اسرائیل حماس جنگ کے آغاز ہی سے مختلف عالمی رہنما اور مبصرین اس جنگ کے خطے میں پھیلنے کا خطرہ ظاہر کر رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے مصر کے حکمراں عبدالفتاح السیسی نے غزہ کی صورتِ حال کو ٹک ٹک کرتا بم قرار دیا تھا جب کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ غزہ پر اسرائیل کی بمباری سب کو اس تنازع میں شامل ہونے پر مجبور کردے گی۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور ان کی حکومت کے اہم عہدے دار پہلے ہی ایران کو جاری تنازع سے دور رہنے کے لیے خبردار کرچکے ہیں تاہم مبصرین کے مطابق اسرائیل کی زمینی کارروائی کے آغاز کے بعد سے جنگ کا دائرہ پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔

اس بارے میں سابق امریکی اہل کار جوناتھن پینکوف کا کہنا ہے کہ امریکہ ممکنہ طور پر پسِ پردہ رہ کر اسرائیل پر چھوٹے اور ٹارگٹڈ کارروائیوں کے لیے زور دے رہا ہے۔ ان کے مطابق امریکہ اس صورتِ حال کا جائزہ ان کاوشوں کے تناظر میں لے رہا جو اس نے مشرقِ وسطیٰ میں استحکام لانے کے لیے گزشتہ چند برسوں میں کی ہیں۔

ان کے بقول امریکہ اس تنازع کو اسرائیل اور غزہ تک محدود رکھنا چاہتا ہے اور یورپی اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کا بھی مشترکہ ہدف ہے اور چین بھی ایسا ہی چاہتا ہے۔

SEE ALSO: عرب خطے کی تقسیم کا اہم کردار لارنس آف عریبیہ، جسے گمنامی کی خواہش کراچی لے آئی تھی

تاہم ان کا کہنا ہے کہ حالات بتدریج تشویش ناک رُخ اختیار کر رہے ہیں۔ امریکہ نے جمعے کو شام میں اپنے ایک فوجی اڈے پر حملے کے جواب میں ایران نواز ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اسی دوران حماس اور حزب اللہ کے ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں۔

ان کے بقول حالیہ صورتِ حال میں شمالی اسرائیل میں ایک نئی جنگ کے آغاز کا خطرہ بھی ہے۔

’سیاہ دن شروع ہونے والے ہیں‘

سابق امریکی جنرل رابرٹ ایبرمز کہتے ہیں کہ اسرائیل کی فوجی کارروائی کے بعد بھی کئی مسائل کو حل کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ حماس ایک علیحدہ فلسطینی ریاست قائم نہ ہونے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ یہ دو ریاستی حل پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہوا جس کا اس تنازع کے تناظر میں اکثر ذکر کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی سوال کرتا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ختم ہو گا؟ تو اس جانب پیش رفت کے لیے دو ریاستی حل بھی اس سوال کے جواب کا حصہ ہونا چاہیے۔

رفیق الحریری سینٹر فار مڈل ایسٹ کی ڈائریکٹر اسٹریٹجی تقی نصیرات کا کہنا ہے کہ خطے کے لیے ’سیاہ دن‘ شروع ہونے والے ہیں کیوں کہ اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادی دہائیوں پر محیط اس تنازع کا صرف عسکری حل چاہتے ہیں۔

اُن کے بقول یہ مسئلہ صرف قبضے کے خاتمے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق فلسطینیوں کے جائز مطالبات پورے کرکے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔

’بارود کا ڈھیر‘

اسرائیل نے حماس کے خطرے کے مکمل خاتمے کو غزہ میں جاری کارروائیوں کا ہدف قرار دیا ہے۔ تاہم مبصرین کے نزدیک اس مقصد میں کامیابی کے باوجود اسرائیل کی سیکیورٹی کے لیے خطرات ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی خطے میں استحکام پیدا ہو سکے گا۔

SEE ALSO: اسرائیل پر حملہ کرنے والی عسکری تنظیم حماس کیسے قائم ہوئی؟

امریکی محکمۂ دفاع کے سابق عہدے دار ایلکس پلٹساس کے مطابق حماس اگر مکمل تباہ ہو جاتی ہے تو ایران لبنان میں اپنی پراکسی ’حزب اللہ‘ کو مزید فعال کر دے گا۔ لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال حزب اللہ کو اسرائیل اور شاید امریکہ کے ساتھ لڑائی میں دھکیل دے گی۔

ان کے بقول ایسا کرنے پر ایران کی سب سے بڑی پراکسی کی توانائیاں صرف ہو جائیں گی اور وہ اس تنازع میں بالواسطہ مداخلت کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جائے گا۔

تاہم ایلکس پلٹساس کے مطابق بعد میں پیدا ہونے والی صورتِ حال بھی غیر یقینی ہوگی اور خطہ بارود کا ڈھیر بنا رہے گا۔

اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔