امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی) کے ایڈوائزری گروپ نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین لگوانے کے بعد بعض نوجوانوں میں دل کے امراض کی شکایات سامنے آئی ہیں۔
امیونائزیشن پریکٹیسز کے ایڈوائزری کمیٹی نے 17 مئی کے ایک بیان میں کہا ہے کہ ویکسین لگنے کے بعد کچھ نوجوانوں کی رپورٹس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان نوجوانوں میں دل میں سوزش کی شکایات دیکھی گئی ہیں۔ کمیٹی کے مطابق ان میں زیادہ تر ’ٹین ایجر‘ یعنی 13 سے 19 سال کی عمر کے نوجوان شامل ہیں۔
سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ یہ شکایت زیادہ پیچیدگی پیدا کیے بغیر خود بخود ختم ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ کئی طرح کے وائرس ہو سکتے ہیں۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ کیسز کی تعداد کسی بھی آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہے لیکن طبی عملے کو اس قسم کی پیچیدگی کے بارے میں معلومات ہونی چاہئے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کمیٹی نے اس بارے میں مزید تحقیق کرنے سے متعلق بیان میں مزید کچھ نہیں بتایا۔
جانز ہاپکنز ہیلتھ سیکیورٹی سینٹر میں سینئر سکالر ڈاکٹر امیش اڈالجا نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویکسینز کی وجہ سے دل میں سوزش کی بیماری ’’مائیو کارڈائٹس‘‘ لاحق ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق یہ جاننا ضروری ہے کہ ان نوجوانوں میں اس بیماری کی وجہ کرونا ویکسین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ان ویکسینز کے فوائد اور نقصانات کی شرح کا جائزہ لیا جا سکے۔ ان کے بقول ’’اگر مکمل طور پر تحقیق کی جائے تو بھی ویکسینز ہر لحاظ سے اپنے نقصانات کے مقابلے میں زیادہ مفید ثابت ہوں گی۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
سی ڈی سی کے مطابق امراض قلب کی یہ شکایت ایم آر این اے ویکسین لینے کے چار روز بعد سامنے آئی۔ ادارے نے اس بات کی تفصیل نہیں بتائی کہ کس ویکسین کے بعد یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ یاد رہے کہ امریکہ میں موڈرنا اور فائزر کی ویکسین ایم آر این اے ویکسین ہیں جن کے ایمرجنسی استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔
اپریل میں اسرائیل کی وزارت صحت نے کہا تھا کہ وہ فائزر کی ویکسین لینے والوں میں ایک کم تعداد میں دل کی سوزش کی شکایت کی تحقیق کر رہے ہیں۔ وزارت کا کہنا تھا وہ ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے اور یہ کہ جن لوگوں میں یہ شکایت سامنے آئی ہے، ان کی عمر 30 برس سے کم ہے۔
ویکسین بنانے والی کمپنی فائزر کا کہنا ہے کہ اس کو ایسی کم شکایات موصول ہوئی ہیں اور اب تک اس کا ویکسین سے تعلق ثابت نہیں ہوا۔
رائٹرز کے مطابق اس رپورٹ پر تبصرے کے لیے فائزر اور موڈرنا سے رابطہ کیا گیا مگر ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔