وزیرِ اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا ہے ہیں کہ مقامی طور پر تیار کردہ ’کین سائنو ویکسین‘ نے اندرونی جانچ پڑتال کے کڑے مراحل کامیابی سے طے کر لیے ہیں۔ انہوں نے ویکسین کی پیکنگ اور فارمولیشن پر قومی ادارۂ صحت کی ٹیم کو مبارک باد بھی دی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک پیغام میں ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ویکسین کی فارمولیشن اور پیکنگ ’کین سائنو بائیو چائنا‘ کے تعاون سے ممکن ہوئی۔ پاکستان میں تیار ہونے والی چینی ویکسین ’سائنو ویک‘ کو ’پاک ویک‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اپنے بیان میں اُنہوں نے مزید کہا کہ ویکسین کی پیکنگ اور فارمولیشن نے سخت ترین کوالٹی ٹیسٹ پاس کر لیے ہیں۔ جو کہ ویکسین سپلائی لائن کے لیے اہم پیش رفت ہے۔
طبی ماہرین اور محققین پاکستان میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کی تیاری کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔
’ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنالوجی‘ کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ویکسین کی تیاری کے تمام تر مراحل چین کی مدد سے مکمل ہوئے ہیں۔ تاہم اِس کی فلنگ این آئی ایچ اسلام آباد میں ہو رہی ہے، جس کے لیے ایک بہت ہی خاص ماحول درکار ہوتا ہے۔ اس کے تمام تر ٹیسٹ پاکستان میں ہو چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی نے کہا کہ اِس ویکسین کا فارمولا چین کا ہے۔ تمام تحقیق چین کی ہے حتٰی کہ خام مال بھی چین ہی کا فراہم کردہ ہے۔
ان کے مطابق اِس ویکسین کی تیاری کے بعد کے مراحل بھی پاکستان میں نہیں ہو رہے تھے جو کہ شروع ہو گئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم اب پاکستان کسی نہ کسی حد تک اِس ویکسین کی مقامی سطح پر ترسیل کو کنٹرول کر رہا ہو گا۔
کرونا ایڈوائزری گروپ پنجاب کی رکن اور’کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی‘ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر صومیہ اقتدار پاکستان میں تیار کی گئی ویکسین سے متعلق کہتی ہیں کہ پاکستان میں چین کی ویکسین کین سائنو کی آزمائش ’یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز‘ کی زیرِ نگرانی صوبۂ پنجاب میں اور دیگر جگہوں پر ہوئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صومیہ اقتدار بتاتی ہے کہ اِس ویکسین کو چین کی کمپنی نے تیار کیا ہے جس نے اب پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے۔ معاہدے کے تحت ویکسین چین سے آ رہی ہے جس کی پیکنگ پاکستان میں ہو رہی ہے۔ یہ ویکسین پاکستان اور چین کے باہمی اشتراک سے بنائی جا رہی ہے۔
ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنالوجی کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی بتاتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان ویکسین بنانے کے مراحل میں خاصا آگے تھا جس کے بعد ایسا وقت آیا کہ پاکستان کئی وجوہ کی بنا پر اِس میدان میں پیچھے رہ گیا۔ اس کے بعد پاکستان میں کسی بھی ویکسین کی بنیادی تیاری بھی ختم ہو گئی اور ملکی سطح پر بہت کم ویکسین تیار ہو رہی تھیں۔
پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی کہتے ہیں کہ چین اور پاکستان کے درمیان کرونا وائرس کی وجہ سے جو ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔
اُن کے خیال میں پاکستان آہستہ آہستہ ویکسین کی تیاری کے بنیادی مراحل کی طرف بھی جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر شوکت علی کے مطابق اگر پاکستان نے چین سے اِس ویکسین کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال جلد منگوا لیا تو اس کے بعد ٹیکنالوجی ٹرانسفر یعنی بنیادی طور پر ویکسین کی تیاری کا مرحلہ شروع ہو جائے گا جو کہ بہت اہم ہے۔
ڈاکٹر صومیہ اقتدار کہتی ہیں کہ کسی بھی ویکسین کی تیاری کے کچھ مراحل ہوتے ہیں۔ جس میں پہلے مرحلے میں ’ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی‘ کے ذریعے مقامی طور پر صرف اس کی پیکنگ کا کام ہو گا جب کہ اِس کی تیاری چین ہی میں ہو گی کیوں کہ اِس کی تیاری کا فارمولا چین ہی کے پاس ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قومی ادارہ برائے صحت (نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ) اِس ویکسین کی تیاری کے مراحل میں شامل ہے جس کے لیے باقاعدہ طور پر این آئی ایچ میں تمام مراحل کو یقینی بنایا گیا ہے۔ یہ ویکسین ایک خوراک پر مشتمل ہے۔
’پاکستان نئی ویکسین بنانے کی طرف جا سکتا ہے‘
ڈاؤ کالج آف بائیوٹیکنالوجی کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی کے مطابق این آئی ایچ اِس سے پہلے بھی مختلف اقسام کی ویکسین بنا رہا ہے۔ لیکن پاکستان نئی ویکسین بنانے کی صلاحیت کھو بیٹھا تھا۔ اب یہ توقع کی جا رہی ہے پاکستان ایک مرتبہ پھر سے نئی ویکسین بنانے کی طرف جا سکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی نے بتایا کہ ابھی چین نے صرف تیاری کے بعد کا ٹیکنالوجی کا حصہ یعنی حتمی طور پر بنائی گئی ویکسین پاکستان کو دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی ویکسین یا کین سائنو ویکسین کا پہلا مرحلہ تیاری، دوسرا مرحلہ خام مال کی تیاری اور تیسرا مرحلہ ویکسین کی پیکنگ کا ہے۔ ان میں سے پیکنگ کرنے کی صلاحیت پاکستان نے حاصل کر لی ہے۔
ان کے بقول، اس کے بعد یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان مستقل میں ویکسین کے خام مال کی تیاری اور بنیادی تیاری کی طرف بھی جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ چین اِس سے قبل اپنی ویکسین کین سائنو کی پاکستان میں آزمائش کر چکا ہے۔