امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ امریکہ شمالی کوریا کی جانب سے دھمکیوں کے سلسلے میں ایشیا کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ اپنی وابستگی پر بدستور قائم ہے۔ جمعرات کے روز امریکہ اور جاپان کے درمیان دفاعی اور سفارتی مذاکرات میں امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا کہ واشنگٹن شمالی کوریا کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے علاقے پر داغے گئے کسی بھی میزائل کو مار گرانے کے لیے فوری اور واضح کارروائیاں کرے گا۔
اس ہفتے شمال مشرقی ایشیا میں امریکہ اور جاپان کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں اس بارے میں محض مثالیں ہیں جنہیں عہدے دار، شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل کے خطرات کے دوران، دونوں اتحادیوں کے درمیان سیکیورٹی اور دفاع میں مضبوط تعاون قرار دیتے ہیں۔
جمعرات کے روز امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے اپنے جاپانی ہم منصبوں کے ساتھ مذاكرات کے بعد ایک متحدہ پیغام جاری کیا، جس میں پیانگ یانگ کو یہ پیغام دیا کہ امریکہ اپنے اور اپنے اتحادیوں کے دفاع کے لیے پوری طرح سے تیار ہے۔
وزیر دفاع جم میٹس نے کہا ہے کہ ہم مل کر دفاع کریں گے اور اگر ضروری ہوا تو کسی بھی خطرے کو شکست دیں گے۔ جارحیت کی کسی بھی پیش قدمی کا موثر اور بھر پور جواب دیا جائے گا۔ ہم دونوں ملک ان دو طرفہ سر گرمیوں کو جاری رکھ کر اور جمہوریہ کوریا کے ساتھ تعاون میں اضافہ کر کے اپنے اتحاد کی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ اگرچہ سفارت کاری کو موقع ملنا چاہیے تاہم فوجی راستہ بھی ابھی تک پیش نظر ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ظاہر ہے کسی بھی ایسی صورت حال میں جہاں آپ کو اس سطح کا خطرہ درپیش ہو جس کا ہمیں سامنا ہے، اس سطح کے خطرے کے خلاف جس کی ہم میں سے کوئی بھی توقع نہیں کرنا چاہتا، شمالی کوریا کی جانب سے کسی غلط طریقے کے انتخاب کی صورت میں سخت فوجی رد عمل کی تائید حاصل ہونی چاہیے۔
امریکہ کی جانب سے وابستگی کے اس اعادے کا مقصد جاپان کو ایسے میں نئے سرے سے یقینی دہانی کرا نا ہے، جب ٹوکیو شمالی کوریا کی جانب سے کسی امکانی فوجی کارروائی کے خلاف اپنا دفاع مضبوط کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ جاپان کے وزیر خارجہ تارو کونو نے کہا کہ پیانگ یانگ کے ساتھ کوئی بھی مذاكرات اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتے جب تک وہ جوہری اشتعال انگیزی نہیں روک دیتا۔
اسی دوران جمعرات کےر وز جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان نے سول میں کہا کہ اگر شمالی کوریا میزائل اور جوہری تجربے روک دیتا ہے تو وہ مذاكرات کے لیے ایک خصوصي سفیر وہاں بھیجنے پر غور کریں گے۔