کیا امریکہ میں کوئی خاتون صدر بن سکتی ہے؟

صدارتی دوڑ میں شامل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار۔ فائل فوٹو

دنیا کے 59 ممالک میں خاتون سربراہ مملکت منتخب ہو چکی ہیں۔ تاہم، امریکہ میں یہ ہدف کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی سابق صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک انتہائی اونچی اور سخت شیشے کی دیوار ہے۔"

سال 2016ء کے صدارتی انتخاب میں ہلری کلنٹن کی موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے شکست نے 2020 میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل پانچ خواتین کے جیتنے کے امکانات بظاہر کم کر دیے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، ہلری کی شکست سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ امریکہ میں کبھی کوئی خاتون صدر منتخب ہو بھی پائے گی یا نہیں۔

ہلری کلنٹن 2016 کے صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ سے ہار گئی تھیں

ہلری کلنٹن نے 2016 کے صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں شکست پر نظر ڈالتے ہوئے حال ہی میں کہا ہے کہ ان کی شکست میں امریکہ میں موجود صنف کے بارے میں غیر مناسب نظریات نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہلری کلنٹن کے مطابق، ادب اور تاریخ کے اب تک معلوم قدیم ترین ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ خواتین کو کم تر سمجھنے اور جنس اور عورت سے نفرت پر مبنی نظریات موجود رہے ہیں۔ لہذا، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

خواتین کے بارے میں صدر ٹرمپ کا رویہ جس میں ہلری کلنٹن کو ’’بدمزاج عورت‘‘ کہنا، خواتین کی ظاہری شخصیت کے حوالے سے ان پر تنقید کرنا، اسقاط حمل کے مخالف ججوں کو نامزد کرنا اور نسلی امتیاز پر مبنی بیانات کے رد عمل میں گذشتہ برس کانگریس کے وسط مدتی انتخابات میں خواتین امیدواروں کی ایک ریکارڈ تعداد سامنے آئی تھی۔

2020 کے صدارتی انتخاب کیلئے ایک خاتون امیدوار ایلزبتھ وارن

اور اب 2020 میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں میں بہت سی خواتین بھی آگے آئی ہیں۔ ان امیدواروں میں میسا چیوسٹس سے ایلزبتھ وارن، کیلی فورنیا سے کملا ہیرس اور مینی سوٹا سے ایمی کلوبوچر سمیت تین سنیٹر خواتین بھی شامل ہیں۔

آئندہ صدارتی انتخاب کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک خاتون امیدوار کملا ہیرس

ان سب کو سب سے پہلے ایک خاتون ہونے کے ناطے انتخابی اہلیت کی رکاوٹ کو دور کرنا ہو گا۔ امریکہ میں سیاسی عمل کی کمیٹی ’’ایمیلیز لسٹ کی کرسٹینا رینالڈز کہتی ہیں کہ ہمارے ملک میں صدر کیلئے کچھ مخصوص معیار موجود ہیں اور وہ یہ ہیں کہ صدر ہمیشہ ایک مرد کو ہی ہونا چاہئیے اور خواتین فی الحال اس معیار پر پورا نہیں اترتیں۔

یوں صدارتی دوڑ میں شامل ڈیموکریٹک پارٹی کی خواتین امیدواروں کو صنفی امتیاز کا خطرہ لاحق ہے۔ خواتین کو ہمدردی کے قابل تو سمجھا جا سکتا ہے، لیکن مردوں جیسا مضبوط نہیں۔ ’امریکن اینٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ‘ کے رمیش پونورو کا کہنا ہے کہ اس سے ڈیموکریٹک پارٹی کے موجودہ نظریات کو تقویت ملتی ہے۔ بعض اوقات اکثریت حاصل کرنے کیلئے روایتی نظریات کو کسی قدر نظرانداز کرنا پڑتا ہے۔

ہلری کلنٹن کی ناکامی کے بعد کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ 2016 کے صدارتی انتخاب میں شاید ایک مرد امیدوار کیلئے انتخاب جیتنا آسان ہوتا۔ تاہم، ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے اس دوڑ میں شامل خواتین امیدوار اس خیال کو رد کرتی ہیں۔ سنیٹر اہلزبتھ وارن کا کہتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو با اختیار منصب پر پہنچانا ترقی کی جانب ایک قدم ہے۔ اور یہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ لیکن، اگر آپ کوشش نہیں کریں گے تو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ایک اور امیدوار سابق نائب صدر جو بائیڈن نے ایلزبتھ وارن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ غصیلی اور لچک نہ رکھنے والی خاتون ہیں‘‘۔ وارن نے ایک ای میل کے ذریعے اپنے رد عمل میں کہا ، ’’مجھے انتہائی غصہ ہے اور میں یہ بات مانتی ہوں۔‘‘

جو بائیڈن اور ایلزبتھ وارن ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی مباحثے میں

آج کی خاتون امیدوار صنفی لحاظ سے ہونے والی تنقید یا خواتین کے بارے میں دوہرے معیار کے خلاف بات کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں۔ ایملیز لسٹ کی کرسٹینا رینالڈز کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں اس سے اب لوگوں کی آنکھیں کھلنے لگی ہیں اور وہ اب سوچنے لگے ہیں کہ کیا مردوں کو اسی انداز میں دیکھا جاتا ہے۔

حالیہ انتخابات سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ خواتین اب ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرنے لگی ہیں۔ اور حالیہ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین میں صدر ٹرمپ کی مقبولیت کم ہو رہی ہے۔

تاہم، 2020 کے صدارتی انتخاب میں خواتین اہم کردار ادا کریں گی اور اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کیا کوئی خاتون امیدوار اس مرتبہ مذکورہ شیشے کی صدارتی چھت توڑ پائیں گی۔