مبصروں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے شام کے صدر اسد کی حکومت کو مدد فراہم کرنے والوں پر جو نئی اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں، ان سے لبنان میں حزب اللہ پر بھی کاری ضرب لگی ہے۔
امریکی حکومت کی سیزر ایکٹ کے تحت نئی پابندیوں سے لبنان کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شام اور لبنان کے درمیان بینکنگ اور تجارتی تعلقات بہت گہرے ہیں اور اب لبنان کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا پڑیں گی، جب کہ لبنان خود بھی شدید مالی بحران کا شکار ہے۔
بیروت میں کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کی ڈائریکٹر ماہا یحییٰ کا کہنا ہے کہ سیزر ایکٹ کے تحت لگنے والی پابندیوں سے لبنان شدید طور پر متاثر ہو گا۔
ان کا کہنا کہ اس پر دباؤ میں اضافہ ہو گا۔ لبنان میں کافی لوگ اور ادارے شام کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں اور ان سب کو اپنے تجارتی مفادات سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
ان کے علاوہ حزب اللہ پر بھی دباؤ بڑھے گا۔ کیوں کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی بنیاد ہے۔
شیعہ حزب اللہ ملیشیا ایران کی حمایت یافتہ ہے اور ایران کی پارلیمنٹ اور حکومت کا حصہ ہے۔ اس طرح یہ سیزر ایکٹ کا سب سے زیادہ نشانہ بنے گی۔
کارنیگی انسٹی ٹیوٹ کے جوزف باہوت نے وی اے او کو بتایا کہ حزب اللہ پہلے ہی دوسری پابندیوں کا شکار ہے اور اب ان میں مزید اضافہ ہو گا۔ تاہم ان سے صورت حال زیادہ تبدیل نہیں ہو گی۔
باہوت کا خیال ہے کہ لبنان کی داخلی سلامتی کے سربراہ بدستور دمشق سے رابطے میں رہیں گے۔ کیوںکہ یہ مغربی طاقتوں کے مفاد میں بھی ہے۔ تاہم دونوں ملکوں کے معاشی حالات مزید دگرگوں ہوں گے۔
لبنان کے پانچ بینکوں کی شاخیں شام میں قائم ہیں، لیکن اب وہ شام میں کام نہیں کر سکیں گی، ہو سکتا ہے کہ لبنان اور شام کے درمیان تعلقات میں بہتری کی کوششیں بھی متاثر ہوں اور لبنان کی حکومت کی موجودہ پالیسی برقرار نہ رہ سکے۔