لبنان میں معاشی مشکلات کے خلاف احتجاج کے دوران مظاہرین نے ایک درجن بینکوں کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی یا انہیں نقصان پہنچایا ہے۔
نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کی رپورٹ کے مطابق لبنان میں مسلسل دوسرے روز بھی احتجاج جاری رہا جب کہ ملکی کرنسی کی گرتی ہوئی صورت حال سے احتجاج کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دارالحکومت بیروت، صیدا، نبطیہ، وادی البقاع، عکار سمیت کئی شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
رپورٹس کے مطابق سب سے زیادہ پر تشدد مظاہرے ملک کے شمال میں واقع شہر طرابلس میں ہوئے ہیں۔ طرابلس لبنان کا دوسرا بڑا لیکن غریب ترین شہر ہے۔
طرابلس میں مظاہروں نے شدت اس وقت اختیار کی جب ایک 26 سالہ نوجوان فوزالسیمان سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہوا بعد ازاں اس کی موت ہو گئی۔
ہلاک ہونے والے نوجوان کی بہن فاطمہ کا کہنا تھا کہ اس کے بھائی کو فوج نے گولیاں ماری ہیں جب کہ فوج کی جانب سے جاری بیان میں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ فوج کی جانب سے سخت اقدامات کی وجہ سے احتجاج میں شدت آئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی نوجوان کی ہلاکت کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے جب کہ تحقیقات کے بعد اس کو عوام کے سامنے لانے کا بھی کہا گیا ہے۔
طرابلس میں ہلاک ہونے والے نوجوان کی تدفین کے بعد احتجاج شروع ہوا جس میں ایک بینک کو نذر آتش کر دیا گیا۔ منگل کو شروع ہونے والا احتجاج بدھ کو بھی جاری رہا۔ اس دوران فوج کے اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔
اسی طرح صیدا شہر میں بھی ایک بینک پر مظاہرین نے پتھراؤ کیا اور پیٹرول بم بھی پھینکے۔ بیروت، نبطیہ میں بھی بینکوں کو نذر آتش کیا گیا۔ صیدا میں ایک بینک میں مظاہرین کی بڑی تعداد داخل ہوئی اور اس میں آگ لگا دی۔ اس دوران مظاہرین نعرے بھی لگا رہے تھے۔
لبنان کی کرنسی پاؤنڈ کی قدر میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ چھ ماہ میں اس کی قدر میں 50 فی صد تک کم آئی ہے۔ کرونا وائرس نے لبنانیوں کو کرنسی کی قدر میں گراوٹ، قیمتوں میں اضافہ اور ملازمتوں کی برطرفیوں کے سامنے لا کر کھڑا کیا ہے جس سے ان کی مشکلات میں مزید بڑھ گئی ہیں۔
رواں سال کے آغاز میں لبنان میں غربت کی شرح 50 فی صد تھی۔ ایسے میں گزشتہ ماہ مارچ کے وسط میں کرونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا۔ جس سے صورت حال مزید خراب ہو گئی۔
سماجی بہبود کے وزیر رمزی المشرفی کے مطابق ملک کی 75 فی صد آبادی کو امداد کی ضرورت ہے۔
لبنان کی آبادی 70 لاکھ کے قریب ہے۔ جہاں گزشتہ سال اکتوبر میں حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے تاہم لاک ڈاؤن کے سبب اس میں وقفہ آ گیا تھا۔ اب دوبارہ احتجاج کی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ریڈ کراس کے مطابق انہوں نے حالیہ احتجاج میں 30 کے قریب زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جب کہ چھ افراد کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق احتجاج میں کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ جن میں سے اکثر کو ربڑ کی گولیاں لگی تھیں۔
دوسری جانب لبنان کی فوج نے یہ تو نہیں بتایا کہ احتجاج میں اس کے کتنے اہلکار زخمی ہوئے البتہ یہ کہا گیا ہے کہ ملک میں سڑکوں کو بند کرنے کی کوشش کو رکنے میں اس کے 54 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔