امریکہ نے شام کی حکومت کے ساتھ تجارت اور کاروباری افراد پر جو پابندیاں عائد کی تھیں، ان کا اطلاق 17 جون سے ہو رہا ہے۔ شام کے بہت سے حصوں اور بالخصوص دروز کے کاروباری حلقے ملک کی گرتی ہوئی معاشی حالت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
شام کے علاقے دروز میں گذشتہ پانچ روز سے احتجاج جاری ہے۔ نجی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عوام مہنگائی، افراط زر اور حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ شام کے دارالحکومت دمشق میں اطلاعات کے مطابق دوکانیں اور کاروبار بند ہیں، کیوںکہ زرمبادلہ کی شرح غیر معمولی طور پر گھٹ بڑھ رہی ہے۔ ادویات بنانے والے کارخانے خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے دوائیں تیار نہیں کر رہے ہیں۔ حکومت پٹرول کی قلت کے پیش نظر لبنان سے گیسولین منگوا رہی ہے۔
ملک میں بڑھتے ہوئے بحران کو دیکھتے ہوئے شام کے صدر بشار الا اسد نے جمعرات کو وزیر اعظم عماد خامس کو ہٹا کر وزیر زراعت حسین آموس کو نیا وزیر اعظم بنا دیا ہے۔ اس بحران کی خاص خاص وجوہات میں پڑوسی ملک لبنان کا معاشی بحران، دوست ملک ایران کے خلاف امریکی پابندیاں اور اپنے کزن رامے مخلوف کے ساتھ اندرونی تنازع شامل ہیں۔ رامے مخلوف ایک موبائل نیٹ ورک کے مالک ہیں اور ان کی کاروباری سرگرمیاں مشکوک بتائی جاتی ہیں۔
عرب میڈیا سے بات کرتے ہوئے شام کے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اسامہ ال قادی کا کہنا ہے کہ رامے اور اسد کے جھگڑے کی وجہ سے شامی پاؤنڈ کی قدر تین گنا کم ہو گئی ہے۔ حکومت کے کالے دھندے والے کاروبار کو بند کرنے کے فیصلے نے معاشی بحران کو اور بھی شدید کر دیا ہے۔
یونیورسٹی آف اوکلاہاما میں مشرق وسطیٰ پروگرام کے سربراہ جوشوا لینڈیس کہتے ہیں کہ شامی پاؤنڈ کی قیمت گرنے سے ہر ایک متاثر ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے شام میں اس وقت شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس وقت شام میں جو احتجاج ہو رہا ہے اس کی وجہ لوگوں کا بڑھتا ہوا اضطراب ہے۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ اس بحران سے اسد حکومت کے لیے کوئی خاص خطرہ پیدا نہیں ہو گا، کیوںکہ اس وقت سامنے کوئی مضبوط سیاسی مخالف موجود نہیں ہے۔
لینڈیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئی امریکی پابندیوں سے روسی مفادات کو زیادہ ضرب پہنچے گی۔ شام کی حکومت کے خلاف جو پابندیاں عائد ہونے جا رہی ہیں، ان میں شامی باشندوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے اور اس طرح روس کو اپنی فتوحات کا فائدہ کم ہی مل سکے گا۔
یونیورسٹی آف پیرس میں سیاسیات کے پروفیسر خطار ابو دایاب نے وی اے او کو بتایا کہ اسد حکومت شامی پاؤنڈ کی قدر کے گرنے سے کمزور ہوئی ہے، کیونکہ اس سے عام لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ دوسری طرف لبنان پر امریکہ کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے بحران کو شدید کر دیا ہے۔ لبنان پر شام کا بہت انحصار ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تین سے چار ارب سالانہ کی تجارت ہوتی تھی اور لبنان کو راہداری کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔