روس امریکہ تعلقات میں بہتری

روس امریکہ تعلقات میں بہتری

ماسکو نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سخت پابندیوں کی حمایت کی اور تہران کو S-300 طیارہ شکن میزائل کی فراہمی بھی معطل کی ہے۔ مزید براں، روسی حکومت نے لیبیا پر ’نو فلائی زون‘ قائم کرنے کی بھی مخالفت نہیں کی: ماہرین

اکثرماہرین اِس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ اور روس کے درمیان بہتر تعلقات ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات تو اب بھی موجود ہیں ، لیکن وسیع تر امور پروہ زیادہ تر مل کر کام کر رہے ہیں۔

روس کے ساتھ بہتر تعلقات کو صدر براک اوباما نے اپنی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ بنایا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تین سال پہلے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کی تھوڑی ہی دیر بعد مسٹر اوباما نے تعلقات کو نئے سرے سےاستوار کرنے کی جس پالیسی کا آغاز کیا اُس نے بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔


جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں روسی امور کی ماہر اینجلا سٹینٹ کا کہنا ہے کہ ان تعلقات کی اہم بات دور مار ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کرنے کا ’نیو سٹارٹ‘ نامی معاہدہ ہے جس پر دونوں ملکوں نے دستخط کئے ہیں۔

اینجلا کہتی ہیں: ’ہم اب بھی ایک دوسرے کو تباہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے ان سب ایٹمی ہتھیاروں کو رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ سرد جنگ ختم ہو چکی ہے، اس لئے ہم نے ایٹمی ہتھیاروں میں خاطر خواہ کمی کی ہے، اور ہم اس میں مزید کمی کریں گے۔ اس لئے میرے خیال میں یہ سب حاصل کرنا بہت ضروری تھا‘۔

اینجلا سمیت دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ دوسری اہم کامیابی وہ معاہدہ تھا جس کے تحت امریکی فوجی گاڑیوں کو افغانستان جانے کے لئے روس میں سے گزرنے کی اجازت دی گئی ۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کے تناظر میں ،اینجلا کا کہنا ہے کہ جنگ کے لئے سپلائی کا یہ روٹ بہت اہمیت کا حامل ہے۔

ماسکو نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سخت پابندیوں کی بھی حمایت کی ہے اور تہران کو S-300 طیارہ شکن میزائل کی فراہمی بھی معطل کی۔ مزید براں، روسی حکومت نے لیبیا پر نو فلائی زون قائم کرنے کی بھی مخالفت نہیں کی۔


تاہم، اینجلا کہتی ہیں کہ دونوں جانب سے یورپ میں دفاعی میزائل نظام کی تنصیب کے امریکی منصوبے پر اب بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔

اینجلا کا کہنا ہے: ’ہم نے انہیں سمجھایا ہے ، اور ہماری حکومت نے متعدد مرتبہ کہا ہے کہ یہ نظام ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے متعلق ہے، یہ شمالی کوریا کے متعلق ہے، اور اُن ممالک سے متعلق ہے جِن سے ہمیں خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہ روس کو نشانہ بنانے کے لئے نہیں ہے۔

اینجلا سٹینٹ کا کہنا ہے کہ نئے سرے سے استوار ہونے والے روابط کی بنیاد، صدر براک اوباما اور ان کے ہم منصب دمتری میدویدیف کے درمیان تعلقات پر رکھی گئی ہے۔ اینجلا کے الفاظ میں: ’ان کی متعدد بار ملاقات ہوئی ہے، اور انہوں نے بہت سی باتیں کی ہیں۔ صدر اوباما نے جولائی 2009ء میں وزیر اعظم ولیدیمیر پیوتن سے ملاقات کی، لیکن یہ ایک مشکل ملاقات تھی۔ پیوتن امریکہ کے خلاف ناپسندیدگی اور تلخی لئے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک بش انتظامیہ نے بہت سے وعدے پورے نہیں کئے، اور وہ یقیناً اب ان کے متعلق باتیں کرتے رہتے ہیں ‘۔

مسٹر پیوتن کی تنقید کےبارے میں قومی سلامتی کے سابق مُشیر، جنرل برینٹ سکاؤ کروفٹ کہتے ہیں کہ پیوتن کی بنیادی شکایت یہ ہے کہ سرد جنگ کے اختتام پر ، جب ہم روسی چت پڑے تھے تو آپ نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ آپ نے نیٹو کی سرحدوں کو پھیلاتے ہوئے اس میں پرانے سویت یونین کے کچھ علاقے بھی شامل کر لئے۔ آپ اینٹی بیلسٹک میزائل معاہدے سے بھی پیچھے ہٹ گئے۔ جب ہم کمزور تھے تو آپ نے بہت سے اقدامات کئے۔ اور اب ہم پھر مضبوط ہو گئے ہیں اور مزید کچھ نہیں کر سکتے‘۔

آئندہ چند مہینوں میں، روس کے شہری دمتری میدویدیف کی جگہ نئے صدر کے انتخاب کے لئے رائے شماری میں حصہ لیں گے۔ امکانات ولیدیمیر پیوتن کی کامیابی کے ہیں۔ بہت سے ماہرین کو گمان ہے آیا واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان تعلقات اچھے تعلقات جاری رہ سکیں گے، اور مسٹر پیوتن کے ماضی کو نظر میں رکھتے ہوئے، کہیں کریملن دوبارہ سخت زبان تواستعمال کرنا شروع نہیں کردے گا؟