ان ہتھیاروں کی زیادہ فروخت خلیج فارس کے اتّحادی ملکوں کو کی گئی ۔ جنہیں ایران کے علاقائی عزائم پر تشویش ہے
نیویارک ٹائمز
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ ہے کہ سنہ 2011 میں امریکہ کی غیر ممالک میں جنگی ہتھیاروں کی فروخت ریکارڈ حد تک پہنچ گئی، جو اس سے پہلے کے برسوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھی۔ کانگریس کے ایک جائزے کے مطابق ان ہتھیاروں کی زیادہ فروخت خلیج فارس کے اتّحادی ملکوں کو کی گئی ۔ جنہیں ایران کے علاقائی عزائم پر تشویش ہے ۔ پچھلے سال امریکہ کی سمندر پار ملکوں کو ہتھیاروں کی مجموعی فروخت 66 اعشاریہ تین ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ۔ اس کے بعد رُوس کا نمبر آتا ہے جس نے صرف چار اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کئے۔ سال کے دوران دنیا بھر میں مجموعی طور پر جتنے ہتھیار فروخت ہوئے ان کا تین چوتھائی امریکہ سے خریدا گیا تھا ۔ اس جائزے کے مطابق امریکہ کی تاریخ میں یہ ایک سال کے اندر ہتھیاروں کی سب سے زیادہ فروخت تھی۔ اس سےپہلے امریکہ نے سب سے زیادہ ہتھیار سنہ 2009 میں فروخت کئے تھے، جب ان کی مالیت تقریباً 31 ارب ڈالر کے برار تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ عالمی اقتصادی تنزّل کی وجہ سے حالیہ برسوں میں ہتھیاروں کا کاروبارمندے کا شکار رہا ہے۔ لیکن ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ کی وجہ سےکُچھ خلیجی ممالک مجبور ہو گئے کہ وُہ ریکارڈ حد تک امریکہ سے ہتھیار خریدیں۔ ان میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، اور عمان شامل ہیں، ایران کے ساتھ ان ملکوں کی کوئی مشترک سرحد نہیں ہے ۔ اور انہوں نے امریکہ سے جو سازو سامان حاصل کیا ہے۔ اس میں نہائت ہی قیمتی جنگی طیارےاور پیچیدہ نوعیت کا مزائلی دفاعی نظام شامل ہے۔ کانگریس کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے سودے میں جو سامان شامل تھا ، اُس میں ایف پندرہ قسم کے84 نہائت ہی ترقّی یافتہ لڑاکا طیارے ، قسم قسم کا گولہ بارود ، مزائل اور لوجسٹکل امداد کے علاوہ موجودہ ایف پندرہ قسم کے طیاروں کے بیڑے کو جدید سامان سے آراستہ کرنا شامل ہے۔سعودی عرب کو درجنوں اپاچی اور بلیک ہاک ہیلی کاپٹر بھی فراہم کئے گئے ہیں ۔
اخبار کہتا ہے کہ اس کے علاوہ پچھلے سال امریکہ نے جو دفاعی سازو سامان فروخت کیا ، اُس میں ہندوستان کے ساتھ چار اعشاریہ ایک ارب ڈالر کا ایک معاہدہ شامل ہے۔ جس کے تحت ہندوستان ، امریکہ سے دس سی 17 قسم کے جنگی ٹرانسپورٹ طیارے حاصل کر رہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کی پالیسی کا ایک مقصد یہ رہا ہے کہ خلیج فارس میں عرب اتّحادیوں کے ساتھ مل کر ایک علاقائی مزائلی دفاعی نظام قائم کیا جائے تاکہ وہاں کے شہروں ، تیل کے کارخانوں پائپ لائنوں اور فوجی اڈوں کو ایرانی حملے کے خلاف تحفّظ فراہم کیا جائے۔ اور یہ مزائلی دفاعی نظام ہر ملک کے لئے الگ الگ قائم کیا جا رہا ہے۔
فلوریڈا ٹائمز یونین
امریکہ نقل وطن کر کے آنے والے تارکین وطن کے بارے میں فلوریڈا ٹائمز یونین نے بعض دلچسپ اعدا شمار کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ سنہ 2008 سے جو لوگ نقل وطن کر کے امریکہ آئے ہیں، ان میں ہسپانوی زبان بولنے والوں کے مقابلے ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، جو ایشیا سے آئے ہیں ، اس قسم کے اوسط تارک وطن کے بار ے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ انگریزی بولتا ہوگا اور اس کے پاس کالج کی ڈگری ہوگی۔بہت سے ایشیائی تا رکین وطن کو امریکہ میں پہلے سے موجود ان کے اپنے عزیز انہیں یہاں بلاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد ان لوگوں کے مقابلے میں تگنی ہے،جنہیں کاروباری لوگ ملازمت کی غرض سے بلاتے ہیں۔ میکسکو سے آنے والوں کی تعداد میں بھاری کمی ہوئی ہے۔جس کی وجہ امریکہ میں مکانوں کی تعمیر میں بھاری کمی ہو جانا ہے۔ اور خود میکسکو میں روزگارکے مواقع بڑھ گئے ہیں۔
ایشیا سے نقل وطن کرنےوالوں کے خواص گنواتے ہوئے اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کی عام آبادی کے مقابلے میں 69 فیصد ایشائی امریکی سخت محنت کرنے کے عادی ہیں۔ آپ اوسط ایشیائی گھرانہ زیادہ خوشحال پائیں گے۔ جس کی اوسط آمدنی ساڑھے 68 ہزار ڈالر سالانہ کے مقابلے میں ساڑھے 83 ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ اور جیسا کہ برُوکنگس انسٹی ٹیوٹ کہتا ہےکہ امریکہ کی روائت رہی ہے کہ سخت محنت کی قدر کی جائے ۔ اور یہ بات بہت سے تارکین وطن پر صادق آتی ہے ، خاص طور پر ایشیا سے آنے والوں پر۔
شکاگو ٹربیون
امریکہ کے موجودہ سیاسی اور اقتصادی کوائف پر شکاگو ٹریبیون ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ صدر اوباما اور ان کے ری پبلکن صدارتی حریف مٹ رامنی کا ، ٹیکس لگانے اور حکومت کے اخراجات کے معاملے میں ایک دوسرے سےشدید اختلاف ہے اور دونوں امید وار صحت عامّہ کی نگہداشت ، ریٹائرمنٹ کے بعد کی مراعات کے امور میں ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں، اور اس درمیان قوم کا 160 کھرب ڈالر کا قرضہ روزانہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔اور اخبار کے بقول کاروباری لوگ جب اگلے سال کے لئے اپنا بجٹ مرتّب کرنے بیٹھتے ہیں ۔ تو اُنہیں نہیں معلوم کہ ان کی سرمایہ کاری پر کتنا ٹیکس لگے گا۔ اور وہ جو نئے لوگ بھرتی کرنا چاہیں تو ان کی صحت کے بیمے پر کتنی لاگت آئے گی اسی طرح عام صارفین بھی تذبذب میں ہیں کہ مکان اب خریدا جائے یا بعد میں۔ کالج میں اب داخلہ لیا جائے یا بعد میں۔ نوکری اب بدلی جائے یا بعد میں، غرض انہیں نہیں معلوم کہ ان کے سیاسی لیڈر کیا کُچھ کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ بقول اخبار کے ، ․امریکہ کو انتظار ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ ہے کہ سنہ 2011 میں امریکہ کی غیر ممالک میں جنگی ہتھیاروں کی فروخت ریکارڈ حد تک پہنچ گئی، جو اس سے پہلے کے برسوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھی۔ کانگریس کے ایک جائزے کے مطابق ان ہتھیاروں کی زیادہ فروخت خلیج فارس کے اتّحادی ملکوں کو کی گئی ۔ جنہیں ایران کے علاقائی عزائم پر تشویش ہے ۔ پچھلے سال امریکہ کی سمندر پار ملکوں کو ہتھیاروں کی مجموعی فروخت 66 اعشاریہ تین ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ۔ اس کے بعد رُوس کا نمبر آتا ہے جس نے صرف چار اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کئے۔ سال کے دوران دنیا بھر میں مجموعی طور پر جتنے ہتھیار فروخت ہوئے ان کا تین چوتھائی امریکہ سے خریدا گیا تھا ۔ اس جائزے کے مطابق امریکہ کی تاریخ میں یہ ایک سال کے اندر ہتھیاروں کی سب سے زیادہ فروخت تھی۔ اس سےپہلے امریکہ نے سب سے زیادہ ہتھیار سنہ 2009 میں فروخت کئے تھے، جب ان کی مالیت تقریباً 31 ارب ڈالر کے برار تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ عالمی اقتصادی تنزّل کی وجہ سے حالیہ برسوں میں ہتھیاروں کا کاروبارمندے کا شکار رہا ہے۔ لیکن ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ کی وجہ سےکُچھ خلیجی ممالک مجبور ہو گئے کہ وُہ ریکارڈ حد تک امریکہ سے ہتھیار خریدیں۔ ان میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، اور عمان شامل ہیں، ایران کے ساتھ ان ملکوں کی کوئی مشترک سرحد نہیں ہے ۔ اور انہوں نے امریکہ سے جو سازو سامان حاصل کیا ہے۔ اس میں نہائت ہی قیمتی جنگی طیارےاور پیچیدہ نوعیت کا مزائلی دفاعی نظام شامل ہے۔ کانگریس کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے سودے میں جو سامان شامل تھا ، اُس میں ایف پندرہ قسم کے84 نہائت ہی ترقّی یافتہ لڑاکا طیارے ، قسم قسم کا گولہ بارود ، مزائل اور لوجسٹکل امداد کے علاوہ موجودہ ایف پندرہ قسم کے طیاروں کے بیڑے کو جدید سامان سے آراستہ کرنا شامل ہے۔سعودی عرب کو درجنوں اپاچی اور بلیک ہاک ہیلی کاپٹر بھی فراہم کئے گئے ہیں ۔
اخبار کہتا ہے کہ اس کے علاوہ پچھلے سال امریکہ نے جو دفاعی سازو سامان فروخت کیا ، اُس میں ہندوستان کے ساتھ چار اعشاریہ ایک ارب ڈالر کا ایک معاہدہ شامل ہے۔ جس کے تحت ہندوستان ، امریکہ سے دس سی 17 قسم کے جنگی ٹرانسپورٹ طیارے حاصل کر رہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کی پالیسی کا ایک مقصد یہ رہا ہے کہ خلیج فارس میں عرب اتّحادیوں کے ساتھ مل کر ایک علاقائی مزائلی دفاعی نظام قائم کیا جائے تاکہ وہاں کے شہروں ، تیل کے کارخانوں پائپ لائنوں اور فوجی اڈوں کو ایرانی حملے کے خلاف تحفّظ فراہم کیا جائے۔ اور یہ مزائلی دفاعی نظام ہر ملک کے لئے الگ الگ قائم کیا جا رہا ہے۔
فلوریڈا ٹائمز یونین
امریکہ نقل وطن کر کے آنے والے تارکین وطن کے بارے میں فلوریڈا ٹائمز یونین نے بعض دلچسپ اعدا شمار کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ سنہ 2008 سے جو لوگ نقل وطن کر کے امریکہ آئے ہیں، ان میں ہسپانوی زبان بولنے والوں کے مقابلے ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، جو ایشیا سے آئے ہیں ، اس قسم کے اوسط تارک وطن کے بار ے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ انگریزی بولتا ہوگا اور اس کے پاس کالج کی ڈگری ہوگی۔بہت سے ایشیائی تا رکین وطن کو امریکہ میں پہلے سے موجود ان کے اپنے عزیز انہیں یہاں بلاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد ان لوگوں کے مقابلے میں تگنی ہے،جنہیں کاروباری لوگ ملازمت کی غرض سے بلاتے ہیں۔ میکسکو سے آنے والوں کی تعداد میں بھاری کمی ہوئی ہے۔جس کی وجہ امریکہ میں مکانوں کی تعمیر میں بھاری کمی ہو جانا ہے۔ اور خود میکسکو میں روزگارکے مواقع بڑھ گئے ہیں۔
ایشیا سے نقل وطن کرنےوالوں کے خواص گنواتے ہوئے اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کی عام آبادی کے مقابلے میں 69 فیصد ایشائی امریکی سخت محنت کرنے کے عادی ہیں۔ آپ اوسط ایشیائی گھرانہ زیادہ خوشحال پائیں گے۔ جس کی اوسط آمدنی ساڑھے 68 ہزار ڈالر سالانہ کے مقابلے میں ساڑھے 83 ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ اور جیسا کہ برُوکنگس انسٹی ٹیوٹ کہتا ہےکہ امریکہ کی روائت رہی ہے کہ سخت محنت کی قدر کی جائے ۔ اور یہ بات بہت سے تارکین وطن پر صادق آتی ہے ، خاص طور پر ایشیا سے آنے والوں پر۔
شکاگو ٹربیون
امریکہ کے موجودہ سیاسی اور اقتصادی کوائف پر شکاگو ٹریبیون ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ صدر اوباما اور ان کے ری پبلکن صدارتی حریف مٹ رامنی کا ، ٹیکس لگانے اور حکومت کے اخراجات کے معاملے میں ایک دوسرے سےشدید اختلاف ہے اور دونوں امید وار صحت عامّہ کی نگہداشت ، ریٹائرمنٹ کے بعد کی مراعات کے امور میں ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں، اور اس درمیان قوم کا 160 کھرب ڈالر کا قرضہ روزانہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔اور اخبار کے بقول کاروباری لوگ جب اگلے سال کے لئے اپنا بجٹ مرتّب کرنے بیٹھتے ہیں ۔ تو اُنہیں نہیں معلوم کہ ان کی سرمایہ کاری پر کتنا ٹیکس لگے گا۔ اور وہ جو نئے لوگ بھرتی کرنا چاہیں تو ان کی صحت کے بیمے پر کتنی لاگت آئے گی اسی طرح عام صارفین بھی تذبذب میں ہیں کہ مکان اب خریدا جائے یا بعد میں۔ کالج میں اب داخلہ لیا جائے یا بعد میں۔ نوکری اب بدلی جائے یا بعد میں، غرض انہیں نہیں معلوم کہ ان کے سیاسی لیڈر کیا کُچھ کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ بقول اخبار کے ، ․امریکہ کو انتظار ہے۔