ایسے میں جب نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں دو ہفتے باقی ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ وسطی امریکہ کے ممالک سے غیر قانونی طور پر امریکہ داخل ہونے کے خواہشمند تارکین وطن کے قافلے کے خلاف کارروائیوں پر بار بار زور دے رہے ہیں، جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی صحت کے نظام پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔
یہ وسط مدتی انتخابات اس بات کا تعین کریں گے کہ کانگریس کے دونوں ایوانوں پر کون سی جماعت کا کنٹرول ہوگا۔
بہت سے ڈیموکریٹس نے تارکین وطن کے مسئلے پر زیادہ گفتگو نہیں کی اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ ری پبلکن سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔
حقوق انسانی سے وابستہ ادارے صدر ٹرمپ کے اس پُرزور دعوے سے متفق نہیں ہیں کہ امریکہ داخل ہونے کے خواہشمند تارکین وطن کے قافلے میں جرائم پیشہ افراد اور مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والے باشندے شامل ہیں۔ ان دعووں کے حق میں صدر نے شواہد پیش نہیں کیے۔
صحافیوں نے تارکین وطن کے قافلوں میں شامل جن متعدد افراد سے انٹرویوز کیے ہیں وہ یہ باور کراتے ہیں کہ وہ بہتر اور محفوظ زندگی کے لیے امریکہ آنا چاہتے ہیں۔
ہندوراس سے تعلق رکھنے والے ایک ہسپانوی تارک وطن وکٹر سینڈوول کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ پہنچنے کے پیچھے جو خواب ہے، وہ محنت کرنا، اپنے خاندان کی مدد کرناہے، کیونکہ اپنے ملک میں حالات بہت ابتر ہیں۔ وہاں امن و امان کی صورتحال اچھی نہیں ہے اور روزگار نہیں ہے‘‘۔
امریکہ آنے والے قافلے میں سات ہزار افراد شامل ہیں۔ یہ قافلہ گوئٹے مالا سے گزرنے کے بعد 75 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکا ہے اور ابھی بھی امریکہ تک پہنچنے کے لیے اسے کئی کلومیٹر کا فاصلہ عبور کرنا ہے، جہاں صدر ٹرمپ ان کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے فوج تک کے استعمال کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔