’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے میانمار اور بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو ریاستِ رخائین واپس بھیجنے کا پروگرام ترک کریں، جس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہاں وہ ماورائے عدالت ہلاکتوں اور دیگر مظالم کی زد میں آسکتے ہیں، جس زیادتی کا ارتکاب میانمار کی فوج کرتی ہے۔
ایمنسٹی نے کہا ہے کہ روہنگیا برادری کی منظم واپسی، جس کا 15 نومبر سے آغاز ہونا ہے، ’’ایک ناعاقبت اندیشانہ قدم ہوگا، جس سے اُن کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوگا‘‘۔
ایمنسٹی کے مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے سربراہ، نکولس بکلان نے کہا ہے کہ ’’اِن خواتین، مرد اور بچوں کو میانمار کی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا، جب کہ اُن کی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ وہ اُنہی لوگوں کے رحم و کرم پر ہوں گے جنھوں نے اُن کے گھر بار نذر آتش کیے تھے اور اُنھیں گولیوں سے بھون ڈالا تھا، جس کی وجہ سے وہ وہاں سے بھاگ نکلنے پر مجبور ہوئے تھے‘‘۔
بنگلہ دیش نے اعلان کیا ہے کہ وہ سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین کو واپس بھیجنے پر تیار ہے، جو سال 2017 کے بعد اپنا ملک چھوڑ کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔
اُنھوں نے اپنا گھر بار اس لیے چھوڑا کہ میانمار کی فوج نے اُن کے خلاف سخت کارروائی شروع کر رکھی تھی، جس سے قبل روہنگیا کے عسکریت پسندوں نے حملوں کا ایک سلسلہ جاری کر رکھا تھا۔
میانمار نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ روہنگیاؤں کو واپس لینے پر تیار ہے۔
تاہم، عالمی ادارے کے حقوقِ انسانی سے متعلق ادارے کی کمشنر، مشیل باشے نے ریاستِ رخائین لوٹنے والوں کے تحفظ کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، جب کہ ایمنسٹی نے کہا ہے کہ یہ بات واضح نہیں آیا جن افراد کو بنگلہ دیش واپس بھجوانا چاہتا ہے وہ اس اقدام پر تیار ہیں۔
بنگلہ دیش نے کہا ہے کہ صرف وہ مہاجرین جو میانمار لوٹنے کے خواہاں ہیں انھیں ہی واپس بھیجا جائے گا۔
اس سے قبل، بدھ ہی کی صبح، روہنگیا افراد سے برتے گئے رویے پر امریکی نائب صدر مائیک پینس نے کھلے عام میانمار کی لیڈر آنگ سان سوچی پر تنقید کی ہے۔ اُنھوں نے یہ بات سنگاپور میں جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کے سالانہ سربراہ اجلاس کی عمارت کے باہر بالمشافہ ملاقات کے دوران کہی ہے۔