میانمار سے متعلق حقائق کی تلاش سے متعلق اقوام متحدہ کے خود مختار مشن نے مطالبہ کیا ہے کہ میانمار کے اعلیٰ ترین فوجی کمانڈ کے ارکان کے خلاف ریاست راکین میں روہنگیا نسل کے افراد کے قتل عام کے سلسلے میں تفتیش اور قانونی چارہ جوئی کی جائے۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے جنیوا میں قائم انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی گئی۔
حقائق کی تلاش سےمتعلق اقوام متحدہ کے مشن کی رپورٹ میں تفصیلات پیش کرتے ہوئے انہیں انسانی ضمير کو ہلا دینے والے جرائم قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سال کی اس کی تفتیش سے یہ مستند شواہد سامنے آئے ہیں کہ میانمر کی فوج نے جن جرائم کا ارتکاب کیا، وہ بین الاقوامی قانون کے تحت انتہائی سنگین جرائم کے ضمرے میں آتے ہیں۔
مشن کے لیڈر مارزوکی ڈارسمن نے کہا کہ ریاست راکھین میں ہونے والی ہلاکتوں، عورتوں اور بچیوں کے ساتھ اجتماعي زیادتیوں، گھروں کا جلایا جانا، لوٹ مار اور دوسرے مظالم کی اچھی طرح منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ تتما داؤ کے طور پر معروف میانمر کی فوج کی جانب سے ایک مخصوص شہری آبادی، روہنگیا پر ایک دانستہ حملے کا حصہ تھے۔
ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ روہنگیا آبادی ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ایک گروپ ہے اور یہ کہ تتماداؤ اور دوسری سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں قتل عام کی چار یا پانچ اقسام کے ضمرے میں آتی ہیں۔ اور آخری بات یہ کہ تمام حالات و واقعات قتل عام کے ارادے کا نتیجہ اخذ کرنے کی موافقت میں ہیں۔
اگست 2017 میں پھوٹنے والے تشدد کے نتیجے میں روہنگیا کے دس لاکھ پناہ گزینوں میں سے تین چوتھائی بنگلہ دیش چلے گئےتھے۔ ڈارسمن کہتے ہیں کہ جن مظالم نے روہنگیا کو میانمر سے اپنے گھر بار سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا وہ ابھی تک جاری ہیں اور یہ کہ پناہ گزینوں کے لیے واپس جانا محفوظ نہیں ہے۔
رپورٹ میں تتواؤ اور کاچین اور شان کی ریاستوں میں بھی ایسی کارروائیوں کا الزام عائد کیا ہے جو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ضمرے میں آ سکتی ہیں۔
حقائق کی تلاش کے مشن نے سینیر فوجی کمانڈروں کی ایک فہرست تیار کی ہے جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف قتل عام کی کارروائیوں کے سلسلے میں تفتیش اور قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے میانمر کے سفیر کیاؤ مو تن نے تفتیش کاروں پر تنقید کی ہے اور ان کے نتائج کو یک طرفہ، غیرجانبداری کے فقدان اور ریاست راکین کی صورت حال کے پائیدار حل کے تلاش کی حکومتی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو بے گھر ہونے والوں خصوصاً عورتوں اور بچیوں کے ساتھ ہمددردی ہے اور جو کوئی بھی واپس آنا چاہتا ہے وہ انہیں اس کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔