نو منتخب امریکی صدر کی 20 جنوری کو حلف برداری کی تقریب کے دوران دوبارہ ہنگامہ آرائی کے خدشات کے پیشِ نظر امریکی فوجی قیادت نے فوجی اہلکاروں اور سروس ممبرز کو تحریری میمو جاری کیا ہے۔
تحریری میمو میں واضح کیا گیا ہے کہ فوج آئینی اور جمہوری عمل میں کسی صورت مداخلت نہیں کرے گی۔
فوجی قیادت کا کہنا ہے کہ چھ جنوری کو کیپٹل ہل میں جو کچھ ہوا وہ غیر جمہوری اور مجرمانہ فعل تھا۔ آزادیٔ اظہار کسی کو تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔
امریکی فوج کے سروس ممبرز کو بھجوائے گئے اس میمو میں امریکی مسلح افواج کے تمام سربراہان کے دستخط موجود ہیں۔
میمو میں کہا گیا ہے کہ جو بائیڈن نو منتخب امریکی صدر ہیں اور وہ 20 جنوری کو صدارت کا حلف اُٹھا رہے ہیں۔
SEE ALSO: بائیڈن کی حلف برداری سے قبل مسلح مظاہروں کا خدشہ ہے: ایف بی آئی کا انتباہاس غیر معمولی میمو میں مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل مارک ملی کے دستخط بھی موجود ہیں۔
اس میمو کو اس یادہانی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس میں فوج پر واضح کیا گیا ہے کہ آئینی عمل میں کسی طور مداخلت نہیں کی جائے گی۔
یہ میمو ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب قانون نافذ کرنے والے ادارے امریکہ میں جمہوریت کی علامت سمجھے جانے والی کانگریس کی عمارت 'کیپٹل ہل' میں ہنگامہ آرائی کے دوران مجرمانہ سرگرمیوں اور اس میں موجودہ اور سابق فوجی اہلکاروں کے کردار کا بھی تعین کرنے میں کوشاں ہیں۔
البتہ، یہ پہلے ہی واضح ہو چکا ہے کہ چھ جنوری کی ہنگامہ آرائی میں کچھ سابق فوجیوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ تاہم ابھی یہ ثابت نہیں ہوا کہ حاضر سروس فوجی اہلکار بھی ان ہنگاموں میں ملوث تھے یا نہیں۔
عراق جنگ میں خدمات سرانجام دینے والی سابق فوجی افسر سینیٹر ٹیمی ڈک ورتھ نے بھی وفاقی تفتیشی ادارے (ایف بی آئی) سے مطالبہ کیا ہے کہ چھ جنوری کی ہنگامہ آرائی میں سابق یا موجودہ فوجی افسران یا اہلکاروں کی نشان دہی کی جائے۔
البتہ، فوجی قیادت کی جانب سے اہلکاروں کو بھجوائے گئے میمو میں چھ جنوری کو کسی فوجی مداخلت کو حوالہ نہیں دیا گیا۔
میمو میں کہا گیا ہے کہ "ہم نے چھ جنوری کو کیپٹل ہل میں وہ مناظر دیکھے جو قانون کی حکمرانی کے منافی تھے۔ آزادیٔ اظہار اور لوگوں کے جمع ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ تشدد اور بغاوت پر اُکسایا جائے۔"
میمو میں کہا گیا ہے کہ بطور سروس ممبر ہمیں قومی اقدار، نظریات اور اپنے ملک کے آئین کی حمایت اور دفاع کرنا ہے۔
خیال رہے کہ 20 جنوری کو حلف برداری کی تقریب کے دوران کسی بدنظمی سے بچنے کے لیے نیشنل گارڈز کو دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے لیے تعینات کیا جائے گا۔